سپریم کورٹ نے خواتین کے 30 فیصد ریزرویشن پر اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی طرف سے لگائی گئی پابندی کو ہٹایا

نینی تال، نومبر۔سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کی خواتین کو سرکاری ملازمت میں ملنے والے 30 فیصد ریزرویشن پر ریاستی ہائی کورٹ کی جانب سے عائد کی گئی پابندی کوہٹا دیا۔ ساتھ ہی اس معاملے میں مدعا علیہان سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ریاستی حکومت کی جانب سے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کو خصوصی اپیل کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا۔ اس معاملے کی سماعت آج جسٹس ایس عبدالنذیر اور جسٹس وی راما سبرامنیم کی ڈبل بنچ میں ہوئی۔دراصل، اتراکھنڈ پبلک سروس کمیشن کی طرف سےریاست کے 31 محکموں کی 224 آسامیوں کو بھرنے کے لیے گزشتہ سال اگست میں ایک اشتہار جاری کیا گیا تھا۔ اشتہار میں اتراکھنڈ کی خواتین کو ڈومیسائل کی بنیاد پر 30 فیصد ریزرویشن دینے کا التزام کیا گیا۔کمیشن کے اس اقدام کو پوترا چوہان اور دیگر کی جانب سے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت کا یہ قدم غیر آئینی ہے۔ حکومت کو ڈومیسائل کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صرف پارلیمانی قانون کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا التزام ہے۔درخواست گزاروں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے اور زیادہ نمبر حاصل کرنے کے باوجود انہیں کمیشن کے مرکزی امتحان میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 14، 16، 19 کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس آر سی کھلبے کی بنچ نے آخر کار 24 اگست کو ایک عبوری حکم جاری کیا، جس میں 24 جولائی 2006 کو 30 فیصد ریزرویشن کے حکومتی حکم پر روک لگا دی گئی۔ایڈوکیٹ جنرل ایس این بابولکر نے کہا کہ خصوصی اپیل میں کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈ کی خواتین سماجی، معاشی اور تعلیمی بنیادوں پر پسماندہ ہیں اس لیے وہ ریزرویشن حاصل کرنے کی حقدار ہیں۔

 

Related Articles