جن کا ملک کی آزادی میں رتی برابرحصہ نہیں وہ ملک کوبربادکررہے ہیں
آزادی کی تاریخ علماء کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی ,اگست۔مادروطن کی آزادی کے لئے اپنے اکابرین کی قربانیوں کاذکرکرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین اورجمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہاکہ آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخ ہندوستان کے علماء کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ بات انہو ں نے دارالعلوم دیوبند میں قومی پرچم کی نقاب کشائی کے بعد یوم آزادی کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک علماء اورمسلمانوں نے شروع کی تھی یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایاتھا جب اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماء ہی نے بلند کیا تھا، ہمارے اکابرین اورعلماء نے آزادی وطن کا صوراس وقت پھونکاتھا جب دوسری قومیں سوررہی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ملک کی اصل تاریخ سے دانستہ چشم پوشی کرنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جابر انگریزحکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والے یہ ہمارے اکابرین ہی تھے جنہوں نے کابل میں ایک جلاوطن حکومت قائم کی تھی اور اس حکومت کا صدرایک ہندوراجہ مہندرپرتاپ سنگھ کو بنایاگیاتھا، کیونکہ ہمارے اکابرین مذہب سے بالاترہوکر محض اتحاداور انسانیت کی بنیادپر اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزادکرانے کے حق میں تھے، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لائے بغیر یہ خواب پورانہیں ہوسکتاتھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعدمیں جب شیخ الہند مالٹاکی جیل سے رہاہوکرباہر آئے توانہوں نے زوردیکر یہ بات کہی کہ ملک کی آزادی کامشن تنہامسلمانوں کی کوشش سے پورانہیں ہوسکتا، بلکہ اگر انگریزوں کے چنگل سے ملک کو باہر نکالناہے تو آزادی کی تحریک کو ہندومسلم تحریک بنانا چاہئے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر خوش قسمتی سے سکھوں کی جنگجوں قوم بھی ساتھ آجائے تو آزادی وطن کی راہ اوربھی زیادہ آسان ہوجائے گی، شیخ الہند کا یہ مقولہ کتابوں میں محفوظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین ہندومسلم اتحادکے راستہ پر آگے بڑھے اورملک کوانگریزوں کی غلامی سے آزادکرایا، بدقسمتی یہ ہوئی کہ ملک آزادہوگیا اورتقسیم بھی ہوگیا اوریہ تقسیم تباہی وبربادی کا سبب بن گئی اوریہ کسی ایک مخصوص قوم کے لئے نہیں بلکہ ہندوؤں اورمسلمان سب کے لئے۔ مولانا مدنی کہا کہ اگر تقسیم نہ ہوئی ہوتی تو اوریہ تینوں ملک متحدہوتے توآج یہ صورتحال ہرگزنہ ہوئی ہوتی کہ چین ہمارے سرپر کھڑاہواہے اور ہندوستان کے اندردراندازی کررہاہے اورحکومت خاموش ہے، انہوں نے کہا کہ اگریہ طاقت ایک ہوتی تو آج ہندوستان روس اورچین کے ہم پلہ ہوتااوردنیاکی کوئی طاقت ہماری طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کا حوصلہ نہیں کرسکتی۔ انہوں نے آگے کہا کہ یہ کوئی قصہ کہانی نہیں ہے، ایک تاریخ ہے کہ آزادی وطن کے یہ متوالے ہندومسلم کی تفریق نہ کرتے ہوئے انسانیت کی بنیادپر سب کو ایک ساتھ لیکر چلے اوراپنے مقصدمیں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کااظہارکیا کہ جس قوم میں سب سے پہلے آزادی وطن کانعرہ دیا آج اسی قوم کو وطن دشمن کہاجاتاہے، پورے ملک میں مسلمانوں کی یہ تصویربنادی گئی ہے، انہوں نے سوال کیا کہ جن کے بزرگوں نے ملک کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں آج ان کی اولاد وطن دشمن کیوں کرہوسکتی ہے، انہوں نے صاف گوئی سے کہا کہ جو لوگ محبت کی جگہ نفرت کی سیاست کرتے ہیں وہی لوگ تاریخ کو مسخ کرکے پیش کررہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کو امن واتحاد اور انسانیت کی بنیادپر نہیں نفرت کی بنیادپر چلانا چاہتے ہیں، غربت وافلاس افراتفری، بدامنی، بے روزگاری یہ بتارہی ہے کہ جس رخ کی سیاست کو انہوں نے اپنا یا ہے وہ ملک کو بربادی وتباہی کی طرف لے جانے والی ہے، انہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ یہ ملک ہماراہے اس لئے اگر کہیں کچھ ہوتاہے تو سب سے زیادہ ہمارادل تڑپتاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں ہمارے بزرگوں نے دی ہیں، ہم یہ باتیں علی الاعلان کہتے ہیں، کیونکہ یہ اصل تاریخ ہے یہاں حکومت کے کارندے بھی بیٹھے ہوئے ہیں وہ ایک ایک لفظ کو سنیں، پرکھیں اورپڑھیں کہ تاریخ کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہم اس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے لوگوں نے آزادی وطن کے لئے قدم قدم پر صعوبتیں برداشت کیں، یہاں تک کہ جیل کی سزائیں بھی کانٹی، آج جو لوگ ہماری حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہیں وہ بتائیں کہ ان کے لوگوں نے ملک کی آزادی کے لئے کیا کیا؟ انہوں نے کونسی پھلی توڑی؟ تمہاری ماؤں نے توتمہیں اس وقت جنم بھی نہیں دیاتھا، تمہیں کیاپتہ آزادی کیا ہوتی ہے، تم نے توصرف نفرت ہی کی ہے، قربانیاں توہم نے دی ہیں، ہم نے جیلیں کاٹی ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حب الوطنی تھوڑے ہی کہ لاکھ دولاکھ ترنگاتقسیم کرادواورہیروبن جاؤبلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آزادی وطن کے لئے آپ نے کہا پاپڑبیلے ہیں، ہم نے پاپڑبیلے ہیں، اس لئے ہم جانتے ہیں کہ آزادی کسے کہتے ہیں، ہم یہ بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کاقیام ہی آزادی وطن کے لئے ہواتھا، آج کوئی فرقہ پرست اگر اس کی طرف انگلی اٹھاتاہے تووہ پاگل ہے، کم عقل ہے، دیوانہ ہے وہ یہ جانتاہی نہیں کہ دارالعلوم دیوبند کی درودیوارسے آزادی وطن کے لئے کیسی کیسی آوازیں اٹھی ہیں، انہوں نے آخرمیں کہا کہ جس طرح آپ کو حق ہے کہ آزادی وطن کے حوالہ سے آپ اپنے سورماؤں کا ذکر کریں ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنے ان سورماؤں کا ذکر کریں جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے لئے اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کی اورہنستے ہنستے پھانسیوں پر جھول گئے۔