کووڈ 19 کے اہم ترین جسمانی نظام پر مرتب ہونے والے اثرات
نوول کورونا وائرس کے چکر ادینے والے پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کتنے زیادہ جسمانی اعضا پر اثرانداز ہوتا ہے۔
یہ دل ، پھیپھڑوں اور نظام تنفس کو تو متاثر کرتا ہے مگر اب اس کے حوالے سے یہ اسرار بڑھ رہا ہے کہ یہ اعصابی نظام کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔
رواں سال اپریل میں 214 کووڈ 19 کے مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا تھا کہ انہیں سونگھنے کی حس سے محرومی سے لے کر فالج تک متعدد دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوا ہے۔
یہ وائرس دماغی پیچیدگیوں جیسے دماغی ورم، فالج اور اعصابی نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور رواں ماہ لندن کالج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 43 میں سے 10 مریضوں کے دماغی افعال عارضی طور پر غیرفعال ہوگئے جبکہ 12 کو دماغی ورم، 8 کو فالج اور 8 کو اعصابی نقصان کا سامنا ہوا۔
گزشتہ ماہ طبی جریدے دی لانسیٹ سائیکاٹری میں 153 مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 60 سال سے کم عمر افراد کو ڈپریشن، ذہنی انتشار یا فالج کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔
یہ وائرس کس طرح دماغ اور اعصاب کو نقصان پہنچاتا ہے، یہ تاحال مکمل طور پر واضح نہیں، مگر 2 ماہرین نے اعصابی نظام پر تحقیق کا فیصلہ کیا تاکہ کچھ جواب جان سکیں۔یہ ماہرین حیران تھے کہ دماغ حیران کن طریقے سے اپنا تحفظ کرتا ہے مگر پھر بھی کورونا وائرس مرکزی اعصابی نظام میں مداخلت کرلیتا ہے۔
کووڈ 19 کی سب سے عام دماغی علامت سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی ہے جو پہلا اشارہ ہوتا ہے کہ کوئی فرد کورونا وائرس کا شکار ہوگیا ہے۔
دیگر ممکنہ علامات میں سردرد، سر چکرانے، ہوش و حواس ختم ہونا، کمزوری، مفلوج ہوجانا، فالج اور دیگر شامل ہیں۔
یہ تو اب معلوم ہوچکا ہے کہ یہ وائرس ہوا میں موجود ذرات سے پھیلتا ہے، تو انسانی جسم میں داخلے کا پہلا راستہ ناک اور منہ ہوتے ہیں۔
جب ایسا ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر ناک کی اوپر ہڈی سے گزر کر حس شامہ میں مدد دینے والے حصے میں پہنچ جاتا ہے۔اگر وائرس ان اعصاب کو نقصان پہنچادے تو متاثرہ فرد سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا شکار ہوسکتا ہے۔ویسے تو یہ فی الحال ایک نظریہ ہے مگر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 417 میں سے 88 فیصد ایسے افراد جن میں ان علامات کے ساتھ کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی، وہ 2 ہفتے میں صحتیاب ہوگئے اور مزید دماغی مسائل کا شکار نہیں ہوئے۔ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک پروٹین ریسیپٹر ایس 2 جو پھیپھڑوں، گردوں، خون کی شریانوں، پٹھوں، ناک اور منہ میں پایا جاتا ہے، کو یہ وائرس ہدف بناتا ہے اور اعصابی خلیات کو سونگھنے اور چکھنے کے سگنلز بھیجنے سے روک دیتا ہے۔ایس 2 بلڈ پریشر کو مستحکم رکھنے کے ساتھ دل اور دماغ کو نقصان سے بچانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے، جس کے لیے وہ angiotensin II نامی مالیکیول کی سطح کو کم رکھتا ہے، اگر یہ مالیکیول زیادہ ہوجائے تو خون کی شریانیں کھچاؤ کا شکار ہوجاتی ہیں تو اعصا کو خون کی فراہمی محدود ہوجاتی ہے، جس سے انہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ایک دلچسپ حقیقت جو اب ماہرین کے علم میں آنا شروع ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بیشتر علامات براہ راست وائرس کا نتیجہ نہیں ہوتیں بلکہ اس کے خلاف لڑتے ہوئے شدید مدافعتی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔جونز ہوپکنز میڈیسین سے جڑے نیورو گرو برین فٹنس سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماجد کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وائرس کی کہانی جس کے بارے میں ہماری جینیاتی معلومات نہ ہونے کے برابر ہے، جس طرح جسم میں تباہی مچاتا ہے، وہ دنگ کردینے والا ہے۔مثال کے طور پر جب وائرس خون کی شریانوں میں موجود ایس 2 کو ہدف بناتا ہے تو ایک مدافعتی ردعمل حرکت میں آتا ہے، جس سے بہت زیادہ ورم پیدا ہوتا ہے جو جسم کے کلاٹنگ سسٹم کے افعال متاثر کرتا ہے اور لاتعداد کلاٹس کا باعث بنتا ہے۔اس کے ساتھ خون کی شریانوں میں angiotensin II کی زیادہ سطح کے نتیجے میں خون گاڑھا ہونے یا کلاٹس سے دماغ کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ڈاکٹر ماجد نے بتایا کہ کچھ مریض جو کووڈ 19 کو شکست دے دیتے ہیں ان میں خاموش فالج کی علامات جیسے ڈپریشن، ذہنی بے چینی، بے خوابی یا دماغی تنزلی مستقبل قریب میں نظر آسکتی ہیں۔
مگر کئی بار فالج کی شدت بہت زیادہ یا جان لیوا ہوتی ہے اور وہ بھی 30 اور 40 سال سے زائد عمر کے افراد میں، جو عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتا۔
بہت زیادہ ورم کے نتیجے میں وہ حفاظتی دیوار ٹوٹ جاتی ہے جو دماغ کو تحفظ فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میحں دماغی سوجن یا بیماری پھیلنے لگتی ہے۔
اس وائرس کے شکار کچھ مریضوں میں گیویلیان برے سینڈروم کو دریافت کیا گیا جو اعصاب کا ایسا عارضہ جو جسم کو مفلوج کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
جب وائرس کے ردعمل سے اینٹی باڈیز بنتی ہیں تو وہ اعصاب میں موجود پروٹینز کے خلاف ردعمل ظاہر کرتی ہیں، جس سے نقصان پہنچتا ہے۔
مگر یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے وائرس کے حوالے سے ہر ایک کا ردعمل مختلف ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ماجد کے مطابق ایسے بھی افراد ہیں جن کے مدافعتی ردعمل نے اس وائرس پر آسانی سے قابو پالیا، صحت مند افراد جن میں وائرس کی علامات نمودار نہیں ہوتیں، ان کا مدافعتی نظام بظاہر بلڈ کلاٹس یا نقصان دہ مدافعتی ردعمل کے بغیر ہی وائرس کو ختم کردیتا ہے۔
یہ اہمیت کیوں رکھتا ہے؟
دماغی پیچیدگیاں صرف کووڈ 19 تک محدود نہیں، فلو، خسرے اور زیکا وائرسز کے شکار افراد میں بھی انہیں دیکھ گیا ہے جبکہ مرس اور سارس کے مریضوں میں انہیں ریکارڈ کیا گیا۔
ایسا 2 بنیادی میکنزم متاثر ہونے پر ہوتا ہے یعنی اعصابی نظام پر براہ راست وائرل حملہ اور دوسرا بہت زیادہ متحرک ہوجانے والا مدافعتی نظام۔
کچھ دماغی پیچیدگیاں جیسے الجھن یا کمزوری بھی کسی سنگین بیماری کی غیر اہم علامات ہوتی ہیں اور ان کا وائرس سے تعلق نہیں ہوتا۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے دماغی امراض کی ماہر ڈاکٹر فیلیسیا چو دماغی مسائل بظاہر کورونا وائرس میں نمایاں فیچر کے طور پر نظر آتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کووڈ کے کیسز بہت زیادہ سامنے آرہے ہیں جو پہلے کسی کورونا وائرس کی وبا میں سامنے نہیں آئے۔
ڈاکٹر فیلیسیا کے مطابق اب تک جو کچھ سامنے آچکا ہے وہ ہم نے نظام تنفس کے لیے مخصوص کسی وائرس میں عام نہیں دیکھاا، مگر ابھی بھی کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ہماری معلومات مھدود ہے، اس حوالے سے زیادہ گہرائی میں جاکر وبائی بیماری کے دماغی بوجھ کے بارے میں سمجھنا ہوگا۔
اب تک کووڈ سے منسلک دماغی علامات پر بڑے پیمانے پر تحقیقی کام نہیں ہوا تو طبی ماہرین کی جانب سے ان علامات کا علاج ایسے کیا جاتا ہے جیسے مریض کووڈ 19 کے شکار نہ ہوں۔
مگر چھوٹے پیمانے پر یا سیکڑوں افراد پر مشتمل تحقیقی رپورٹس میں ایک چیز نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے جن کے مطابق ایسے مریضوں کے لیے خطرے کے عناصر میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپا قابل ذکر ہیں، جن میں کووڈ 19 کی شدت میں سنگین حد تک اضافے بشمول دماغی پیچیدگیوں کا خطرہ صحت مند افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اس وبا کے دوران بھی ورزش کو معمول بنانا، صحت بخش غذا، مناسب نیند اور تناؤ سے بچنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر ماجد کا کہنا تھا کہ متحرک اور صحت مند طرز زندگی کووڈ 19 کے مریضوں میں اس کی شدت کو معتدل رکھنے یا جلد صحتیابی میں مدد دے سکتا ہے۔
کچھ مریضوں میں کووڈ کی روایتی علامات جیسے کھانسی یا بخار نہیں ہوتیں بلکہ بلکہ ان میں صرف فالج کے اشارے نظر آتے ہیں اور دماغی علامات ہی ان مریضوں کی پہلی اور واحد نشانیاں ہوتی ہیں۔
ایسے حالات میں خون پتلا رکنے والی ادویات اور اسٹرائیڈز بھی اینٹی وائرل ادویات جتنے اہم ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر ماجد نے کہا کہ کووڈ کے متعدد چہرے ہوسکتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ لوگ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں۔