دوران حمل ماں کا زیادہ وزن بچوں کی دماغی نشوونما متاثر کرسکتا ہے: تحقیق
موٹاپے کی شکار حاملہ خواتین کے بچوں کی دماغی نشوونما متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔نیویارک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن کی حامل خواتین میں حمل کی دوسری سہ ماہی کے دوران بچے کی دماغی نشوونما متاثر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن دماغ کے 2 حصوں میں تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے، جن میں دماغ کا سامنے والا حصہ یا کارٹیکس اور nterior insula شامل ہیں۔یہ حصے فیصلہ سازی اور رویوں میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جبکہ ان میں مسائل کا نتیجہ توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، اے ڈی ایچ ڈی، آٹزم اور بسیار خوری جیسے مسائل کی شکل میں نکلتا ہے جیسا ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا۔جریدے جرنل آف چائلڈ سائیکولوجی اینڈ سائیکاٹری میں شائع تحقیق میں حمل کی دوسری سہ ماہی کے دوران ماں کے پیٹ میں موجود 197 بچوں کے اعصابی خلیات کے مختلف گروپس کا تجزیہ کیا گیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ ماں کے وزن اور اوپر درج دونوں دماغی حصوں میں نیورونز کے کنکشنز کے درمیان مضبوط تعلق موجود ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ماں کا زیادہ جسمانی وزن بچے کی دماغی نشوونما میں ممکنہ طور پر کردار ادا کرتا ہے، جس سے موٹاپے کی شکار کچھ خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش کے بعد دماغی اور میٹابولک صحت کے مسائل کی وضاحت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موٹاپے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسی لیے یہ پہلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے کہ بچے کی ابتدائی نشوونما میں ماں کا زیادہ وزن کس طرح اثرانداز ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں موٹاپے اور جسمانی نشوونما کے درمیان تعلق پر بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دماغی افعال کا تجزیہ کرکے روشنی ڈالی گئی، مگر اس نئی تحقیق کے بارے میں مانا جارہا ہے کہ اس میں پہلی بار ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کی دماغی سرگرمیوں میں تبدیلیوں کی جانچ پڑتال کی گئی، وہ بھی حمل کے 6 ماہ کے دوران۔تحقیق کے لیے محققین نے 25 سے 47 سال کی 109 خواتین کی خدمات حاصل کی تھیں جن کا جسمانی وزن کافی زیادہ تھا۔
یہ سب خواتین 6 سے 9 ماہ کے حمل سے تھیں۔محققین نے ان کے بچوں کی دماغی سرگرمی کا جائزہ ایم آر آئی امیجنگ سے لیا اور دماغ کے مختلف حصوں میں بڑے دماغی خلیات کے درمیان رابطوں کا نقشہ تیار کیا۔اس کے بعد ان خواتین کے نتائج کا موازنہ کرکے شناخت کی گئی کہ کس طرح نیورونز کمیونیکشن پر ماں کا جسمانی وزن اثرانداز ہوا۔محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق کا مقصد بچوں میں دماغی یا رویوں کے مسائل کی وجوہات تلاش کرنا نہیں تھا بلکہ وہ صرف ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کی دماغی سرگرمیوں کو دیکھ رہے تھے۔اب وہ ان بچوں کا جائزہ مزید کئی سال تک تعین کریں گے کہ ان میں آنے والی دماغی تبدیلیاں کن طبی مسائل کا خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔