اردوآج ہندوستان ہی کی نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری
نئی دہلی، مارچ ۔اردو قارئین کی کم ہوتی تعداد پر تشویس کا اظہار کرتے ہوئے سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے کہا کہ ہر دس سال میں آبادی تو بڑھ رہی ہے لیکن اردوپڑھنے اور بولنے والوں کی آبادی کم ہورہی ہے۔ یہ بات انہوں نے اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے کہی۔ اس کا اہتمام ’اردو صحافت دو سو سالہ تقریبات کمیٹی‘نے کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے اسی طرح اردو قارئین کی تعداد دن بہ دن کمی واقع ہورہی ہے جو باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک اسکولوں میں اردو نہیں پڑھائی جاتی اس وقت تک اردو پڑھنے اور لکھنے والے کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ مقررہ تعداد نہیں ہوتی اردو استاذنہیں رکھے جاتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن وہ دوسری زبان پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔مسٹر انصاری نے گھروں میں اردو پڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسکولوں میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی اورگھر پر نہیں پڑھائیں گے تو پھر اردو کی پڑھائی کہاں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ جو کام والدین کو کرنا چاہئے وہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو کے فروغ کے ذمہ داری ان کی ہے جن کی زبان ہے لہذا اردو کے تئیں ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ مطمئن رہیں کہ اردو زندہ رہے گی۔تاہم انہوں نے کہاکہ اس وقت اردو صرف ہندوستان کی نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔ امریکہ، آسٹریلیاں اور دیگر ممالک میں اردو رسالے نکل رہے ہیں اور اردو بولی جارہی ہے۔ سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلی جمو ں وکشمیر غلام نبی آزاد نے اردو صحافت کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اردو صحافت کے آغاز کے بارے میں متضاد دعوے کئے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلا شخص جسے کالاپانی بھیجا گیاتھا وہ ایک مسلم صحافی تھا۔ یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شخص کون تھا۔ انہوں نے کہاکہ 1794میں ہندوستان کا پہلا اخبار ٹیپو سلطان نے ’فوجی اخبار‘ کے نام سے نکالا تھا جو فوجیوں کے لئے تھا اور پہلا پرنٹنگ پریس بھی ٹیپو سلطان نے ہی قائم کیا تھا۔انہوں رکن نے جنگ آزادی میں اردو صحافت اوراردو صحافیوں کی خدمات کا ذکر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ان کی قربانیوں پر بات چیت بہت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان آہستہ آہستہ سکڑ رہی ہے اور آج کے بچے انگریزی زبان زیادہ پڑھنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ انہیں اس میں اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ اورسابق سفارت کار میم افضل نے صدارت کرتے ہوئے آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا اور کہا کہ اردو کو مسلمانوں کا زبان بنادیا گیا ہے اور اس میں کچھ حد تک اردو والے بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اردو اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہاکہ اردو دم توڑنے والی زبان نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اردو صحافت کے مستقبل کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ پدم شری اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اگر زبان کا مذہب ہوتا تو اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نماں کرتا دھرتا سدا سکھ لعل اور ہری دت نہیں ہوتے۔دوسرے سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ آج کا میڈیاحقائق پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے حقائق پیش کرتاہے۔ پہلے اخبارات حقائق کے ترجمان ہوتے ہیں جب کہ آج دوسری طرح کے سچ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بقول مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت احتجاج کی صحافت ہے۔مشہور صحافی قربان علی نے کہاکہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک نہ اردو صحافت بچیں گے اور نہ ہی اردو کے اخبارات۔ اردو والے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اخبار کے صحافیوں کی تنخواہ انتہائی کم ہے۔ممبئی سے شائع ہونے والا اخبار ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے اخبارات کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے اخبارات کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور بقا کیلئے کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہناہوگا۔مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کہاکہ اردو صحافت کاچیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اس وقت تک اردو کابقاممکن نہیں ہے۔ روزنامہ آگ لکھنؤ کے مدیراعلی ابراہم علوی نے اس سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ اردو دزبان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچو ں کو اردوپڑھائیں۔ خطاب کرنے والوں میں روزنامہ ندیم بھوپال کے ایڈیٹر عارف عزیز، شاہین نظر، ڈاکٹر سید فاروق، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق، رئیس مرزااور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر متعدد صحافیوں کو ایوارڈ اور مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ جن میں یو این آئی اردو کے سابق سربراہ عبدالسلام عاصم بھی شامل ہیں۔اس موقع پرڈاکٹر مرضیہ عارف نے اپنی کتاب جہان فکر و فن کی کاپی سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کو پیش کی۔ پہلے سیشن کی نظامت پروگرام کے کنوینر اور مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے کی جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دی۔