اے بی جی شپ یارڈ گھوٹالہ: ہم پر انگلیاں اٹھانے والے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں: سیتارمن
نئی دہلی، فروری۔اے بی جی شپ یارڈ لمیٹڈ گھوٹالے پر مودی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کرنے والوں کو ’’اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے‘‘ قرار دیتے ہوئے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پیر کو کہا کہ اس کمپنی کو قرض مرکز میں مودی حکومت بننے سے پہلے دیا گیا تھا اور اسے این پی اے اسی وقت قرار دیا گیا تھا۔کمپنی پر بینکوں سے تقریباً 23 ہزار کروڑ روپے کا غبن کرنے کا الزام ہے۔ وہ دہلی میں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سنٹرل بورڈ کی پہلی روایتی مابعد بجٹ میٹنگ کے بعد آر بی آئی کے گورنر شکتی کانتا داس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے اے بی جی شپ یارڈ کو قرض دینے والے بینکوں کے کنسورشیم کی تعریف کی جس نے اوسط سے کم وقت میں اکاؤنٹ میں دھوکہ دہی کا پتہ لگایا۔اس معاملے میں اٹھنے والے سوالات کے بارے میں محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ یہ ریزرو بینک کا دفتر ہے۔ میں یہاں سے کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتی لیکن جو لوگ اس پر شور مچا رہے ہیں، سیاست کر رہے ہیں، وہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گریں گے۔ وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کمپنی کے اکاؤنٹ کو 2014 سے پہلے نومبر 2013 میں ہی این پی اے قرار دیا گیا تھا۔ کمپنی کو پہلے بینکوں کے کنسورشیم نے قرض دیا تھا۔ وزیر خزانہ نے آئی سی آئی سی آئی بینک کی قیادت میں بینکوں کی تعریف کی جنہوں نے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں دھوکہ دہی کا پتہ لگایا۔ انہوں نے کہاکہ عام طور پر بینک لون فراڈ کو پکڑنے میں 52-56 مہینے لگتے ہیں، لیکن اس کمپنی کے معاملے میں انہوں نے ایک بیرونی ایجنسی سے فارنسک آڈٹ وغیرہ کروا کر اوسط سے بھی کم وقت میں اس فراڈ کو پکڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں دو رپورٹیں درج کرائی گئی ہیں۔ محترمہ سیتا رمن نے کہاکہ آج بینک خود اعتمادی سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ بازار سے سرمایہ بھی اکٹھا کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پیر کے روز مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے اتوار کو کہا کہ اس نے ملک کی سب سے بڑی نجی شعبے کی شپنگ کمپنیوں میں سے ایک اے بی جی شپ یارڈ لمیٹڈ کے خلاف تقریباً 23 ہزار کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے۔سی بی آئی نے اتوار کو اپنے ٹویٹر پر ایک بیان میں یہ اطلاع دی۔ تحقیقاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے نجی شعبے کے آئی سی آئی سی آئی بینک کی قیادت میں 28 بینکوں اور مالیاتی اداروں کے 22,842 روپے کے قرضوں کی دھوکہ دہی کی ہے۔اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے کہا ہے کہ قرض دینے والے بینکوں کے کنسورشیم کی قیادت پرائیویٹ سیکٹر کے آئی سی آئی سی آئی بینک نے کی تھی اور اس کے بعد آئی ڈی بی آئی بینک دوسرے لیڈ بینک کے طور پر تھا، لیکن یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا پبلک سیکٹر کا سب سے بڑا بینک ہونے کے ناطے سی بی آئی میں شکایت درج کروائے۔ایس بی آئی کے ایک بیان کے مطابق اے بی جی شپ یارڈ 15 مارچ 1985 کو قائم کیا گیا تھا اور 2001 سے بینکنگ کی سہولت حاصل کر رہا تھا۔ دو درجن سے زیادہ بینکوں اور مالیاتی اداروں نے مشترکہ طور پر اسے قرض دینے کا انتظام کیا تھا اور اس قرض کے انتظام کی قیادت آئی سی آئی سی آئی بینک نے کی تھی۔کمپنی کے اکاؤنٹ کو خراب کارکردگی کی وجہ سے 30 نومبر 2013 کو نان پرفارمنگ اثاثہ(این پی اے) قرار دیا گیا تھا۔ کمپنی کو بحال کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔مارچ 2014 میں تمام قرض دہندگان کے ذریعہ سی ڈی آر میکانزم کے تحت اکاؤنٹ کی تشکیل نو کی گئی تھی۔ ایس بی آئی نے کہا ہے کہ اپریل 2018 کے دوران بینکوں نے کمپنی کے کھاتوں کا فارنسک آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ای اینڈ وائی کو بینک نے آڈیٹر کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اس نے جنوری 2019 میں رپورٹ دی تھی۔ ای اینڈ وائی کی رپورٹ 18 بینکوں کی فراڈ ڈیٹیکشن کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔کمپنی کو قرض دینے والوں میں آئی سی آئی سی آئی بینک سرفہرست تھا آئی ڈی بی آئی بینک دوسرا سب سے بڑا قرض دہندہ تھا۔ لیکن ایس بی آئی ان میں پبلک سیکٹر کا سب سے بڑا بینک تھا، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایس بی آئی ہی شکایت درج کرائے۔سی بی آئی میں پہلی شکایت نومبر 2019 میں درج کی گئی تھی۔ سی بی آئی اور بینکوں کے درمیان مسلسل رابطہ تھا اور مزید معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا۔