شری کرشن جنم بھومی فی الحال ایجنڈے میں نہیں : آلوک کمار

نئی دہلی، دسمبر۔ وشو ہندوپریشد (وی ایچ پی) کے بین الاقوامی کارگذارصدر آلوک کمار نے واضح کہنا ہے کہ متھرا میں شری کرشن جنم بھومی ( جائے پیدائش) فی الحال ان کے ایجنڈے میں نہیں ہے اور ابھی تمام توجہ ایوادھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر پرمرکوز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ سال 2024 سے پہلے وہاں عظیم الشان مندر میں رام للا کا درش کیا جا سکے گا ۔ ملک میں اس وقت ہندو، ہندوتوا اور دھرم سنسد کے حوالے سے جاری بحث پر مسٹرآلوک کمار نے کہا’’ اسی کی دہائی میں ہم نے دھرم سنسد کا انعقاد کیا، جس میں ملک بھر سے سادھو- سنتوں نے شرکت کی، اس کے بعد بھی اس طرح کی تقریبات منعقد ہوئیں ۔ کچھ لوگوں یا سنتوں اور سنتوں کے اجتماع کو دھرم سنسد نہیں کہا جا سکتا ۔ اس کے باوجود ہم کسی بھی واقعہ میں کسی مذہب، قرقہ یا سماج کے خلاف کسی بیان کی حمایت نہیں کرتے ۔ ہمارا یقین ہمیشہ ’سروے بھونتو سکھینا‘ میں رہا ہے‘‘ ۔مسٹر آلوک کمار نے یواین آئی سےخصوصی بات چیت کے دوران بابائے قوم مہاتما گاندھی کے خلاف دیے گئے بیان پراختلاف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی بابائے قوم ہیں اور ان کے بارے میں توہین آمیز بات کرنا کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ کسی نے اس کی حمایت نہیں کی ۔ ایسی تمام باتیں اور بیانات کے لیے ملک میں قانون ہے اور اسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔تبدیلی مذہب کے معاملے پر آلوک کمار کا خیال ہے کہ اس کے لیے قومی سطح پر قانون بنایا جانا چاہیے۔ ملک کی 11 ریاستوں میں تبدیلی مذہب سے متعلق قوانین موجود ہیں ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ لاء اینڈ آرڈر ریاستوں کے ماتحت ہے تو پھر ایسا قانون قومی سطح پر کیسے بنایا جا سکتا ہے، مسٹرآلوک کمار نے کہا کہ لالچ یا دباؤ سے تبدیلی مذہب جرم ہے اور اس مسئلے سے قومی سطح پر قانون بنا کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔جب مسٹر آلوک کمار سے جب یہ پوچھا گیا کہ اتر پردیش شیعہ بورڈ کے سابق صدر وسیم رضوی مذہب تبدیل کرنے کے بعد جتیندر تیاگی بن گئے، تب آپ یہ سوال کیوں نہیں کرتے، کسی ہندو مسلمان کے اسلام یا عیسائی بننے پرانہیں شک کیوں ہوتا ہے ؟۔مسٹر آلوک کمار نے کہا کہ کسی کو ان سے متعلق شک ہو تو سوال کیا جا سکتا ہے، قانون کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے ۔ یہ کہے جانے پر راشٹریہ سویم سیوک کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت جب ہندواور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک بتاتے ہیں ، بغیر مسلمانوں کے ہندوتوا ادھورا مانتے ہیں، تو پھر تبدیلی مہذب کے کیا معنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ دونوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ ابا واجداد ایک ہی ہیں، لیکن لالچ اور ڈرا کریا دھوکہ دہی سے مذہب تبدیل کرانے کے وہ خلاف ہے۔یہ سوال اٹھائے جانے پر کہ اتر پردیش حکومت نے تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قانون ایک سال قبل بنایا تھا اور اس کے تحت تقریباً دو سو مقدمات درج ہوئے، لیکن بہت کم لوگوں کو سزا دی گئی یعنی سب کچھ صرف سیاسی منشا کے تحت ہوتا ہے، مسٹر آلوک کمار نے کہا ’’معاملہ منشا کا نہیں ہے، ہندو لڑکیوں کو دھوکہ دے کر شادی کرنا یا پھنسانا کسی بھی طرح مناسب نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ مسٹرآلوک کمار نے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے ہندواور ہندوتوا بیان پر کہا کہ جن کے والد سکھ مخالف نسل کشی پر ’بڑا پیڑ گرنے سے دھرتی ہلنے‘جیسے بیان دیتے ہوں اور تمام دوسری طرح کی بھی باتیں ہیں ، لیکن ان کو کیا جواب دیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا، ’’ہندو اور ہندوتوا کو الگ نہیں کیا جا سکتا، جیسے انسان اور انسانیت ۔ ہندو فطرتاً متشدد نہیں ہیں، انتہا پسندی ہندوتوا میں نہیں ہےاورکرتے کے اوپر جنیو پہننے یا انتخابات کے دوران گوتر بتانے والوں سے ہندو اور ہندوتوا کے اوپر بحث نہیں کی جا سکتی ہے ۔

Related Articles