’جرنل آف لااینڈ ریلیجیس افیئرس‘انصاف اورفیصلے کو مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ کپل سبل
نئی دہلی، دسمبر ۔ انصاف اور فیصلے کے فرق کو واضح کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر عدل و انصاف اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے کہاکہ انصاف اورفیصلے کو مربوط کرنے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جرنل ’جرنل آف لااینڈ ریلیجیس افیئرس‘ اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ رات مسلم پرسنل لا بورڈ کے جرنل ’جرنل آف لااینڈ ریلیجیس افیئرس‘کا مشترکہ طور پر رسم اجرا انجام دیتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہاکہ انصاف اور فیصلے میں فرق ہوتا ہے۔انہوں نے اس کی تشریح کرتے ہوئے ایک جج کی مثال پیش کی اور کہا کہ جب ایک بوڑھی کمرہ عدالت میں داخل ہوکر انصاف کی درخواست کی تو معزز جج صاحب نے کہا تھا کہ ”بڑی بی یہاں فیصلے ہوتے ہیں انصاف نہیں“۔ انہوں نے کہاکہ یہ جرنل انصاف اور فیصلے کو باہم مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ قانون سماج کے لئے ہوتا ہے اور سماج میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور اسی لحاظ سے قانون میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماج کی تبدیلی سے عدالت بہت حد تک واقف نہیں ہوتی لیکن اس طرح کی ریسرچ جرنل عدالت اور سماج کے درمیان ایک پل کا کام کرے گا۔مسٹر سبل نے کہاکہ پارلیمنٹ کوئی قانون بنائے لیکن یہ سپریم کورٹ طے کرتا ہے کہ یہ قانون صحیح ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون سے متعلق سب کی الگ الگ سمجھ ہوتی ہے اور میں جب قانون کو پڑھتا ہوں اس میں نئی چیز سامنے آتی ہے۔انہوں نے کہاکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قانون میں تبدیلی ہوتی رہی ہے اور یہ کوئی پتھر کی نہیں ہے۔ قانون کی سمجھ کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ قانون کب بنا اور اس وقت سماج کی کیا ضرورت تھی۔ کیوں کہ قانون سماج کے لئے بنتا ہے اور سماج کے مطابق نہیں ہے تو اس قانون کو سماج تسلیم نہیں کرے گا۔مشہور وکیل سنجے ہیگڑے نے کہاکہ قانون کی سمجھ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ یہ جرنل مسلم طبقہ قانون کی سمجھ پیدا کرنے میں نمایاں کردر ادا کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ یہاں کے ہر شہری کو مساوی حق حاصل ہے اور احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔ مسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ قانون سے متعلق یہ دستاویزی مجلہ ہے اور لاقانونیت کے اس دور میں قانون انسانی سماج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماج میں مختلف فکر کے لوگ ہوتے ہیں لیکن یہ قانون ہی ہے جو انہیں سماج میں انصاف قٰائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلامی قانون کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ عدل و انصاف ہ اور سماج میں امن کی فضا قائم ہو۔ انہوں نے کہاکہ کثرت میں وحدت اس ملک کی خاص شناخت ہے اگر ایک ہی مذہب، ایک ہی تہذیب کو تھوپا جائے گا تو اس سے ملک کی ہمہ رنگی متاثر ہوگی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت طے کرے گی کہ ہم کیا کھائیں، کیا پہنیں،کب شادی کریں۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا کام نہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور جامعہ ہدایت جے پور کے سربراہ مولانا فضل الرحیم مجدددی نے ملک کے انصاف کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں عام شہری کیلئے انصاف پانا مشکل ترین امرہے۔ خاص طور پر اگر ریاست اور اس کے متعلقہ ادارے اقلیتوں کے خلاف سرگرم عمل ہوں تو عدالتی جدوجہد اور زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ قانون کا تقاضا ہے کہ انصاف آخری سرے پر کھڑے ہر آدمی تک پہنچنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ آج کی ضرورت یہ ہے کہ ہم قانونی شعور حاصل کریں۔ یہ مقولہ ہے کہ ’قانون سے ناواقفیت کوئی عذر نہیں‘ اس کا اطلاق عام آدمی پر ہوتا ہے۔ قانون کا علم اور حل کے راستے معلوم ہوں تو ہر شخص اپنا دفاع کرسکتا ہے اور معاشرے میں اپنے خلاف ناانصافی کا مقابلہ کرسکتا ہے۔جمعیۃ اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے کہا کہ قانون کا مطلب ہوتا ہے صحیح معنوں میں قانون کا نفاذ ہونا اور قانون کے مطابق تابع ہونے سے ہی قانون کا نفاذ ہوسکتا ہے۔شاہی مسجد فتح پوری کے امام مفتی مکرم نے کہا کہ جس طرح ارقہ پرستی پھیل رہی ہے اس یر غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ اس پر روک لگائی جاسکے۔انہوں مسلم پرسنل لا بورڈ پر زور دیا کہ جہاں بھی اس طرح کے حالات ہوں اسے مہذب اندازمیں اس معاملے کو اٹھانا چاہئے۔ جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی نے مختلف کمیونٹی کے درمیان ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مجلہ اس سمت میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔مسلم پرسنل لا بورڈکیصدر موالانا سید علی نقوی نے کہاکہ ہمیں اپنے جمہوری ملک پر ناز ہے اور اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو قانون سے لگاؤ ہوتا ہے لیکن طاقت ور طبقہ طاقت کے بل پر اپنے حؤق لے لیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے لیکن عدالت پر بھروسہ قائم ہے۔ جرنل کے ایڈیٹراور سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد نے قانونی بیداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جو باتیں ہوتی ہیں علمائے کرام اس سے واقف نہیں ہوتے۔اس لئے عدالت کے اہم فیصلوں کے تراجم عوام کے سامنے رکھ دئے جائیں اور اس فیصلے کے بارے میں علماء کا جو نظریہ ہو اسے بھی سامنے رکھا جائے۔ پروگرام کی نظامت قاسم رسول الیاس نے کی جب کہ کمال فاروقی نے شکریہ ادا کیا۔