قرآن کے تراجم اور اسلامی لٹریچرکو ہندی زبان میں منتقل کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت۔ مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی،دسمبر۔قرآن کی اہمیت اور اسے اپنی زندگی میں اتارنے پر زور دیتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولاناسید ارشدمدنی نے کہاہے کہ ہماری نئی نسل اردوزبان سے نابلدہوتی جارہی ہے، اس لئے اب اسلامی لٹریچرکو ہندی زبان میں منتقل کیا جانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔یہ بات انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان سے جب فارسی زبان بھی رخصت ہونے لگی تو علماء نے قرآن کے ترجمہ اور اسلامی لٹریچرکو اردومیں منتقل کرنے کا فریضہ اداکیا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے اور اس وقت کے دوسرے بڑے علماء نے قرآن کے تراجم اور اسلامی لٹریچرکو اردوزبان میں منتقل کرنے میں اہم کرداراداکیا۔ انہوں نے آگے کہا کہ اب جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اردوزبان بھی ہندوستان میں زوال پذیرہے اورہماری نئی نسل میں ایک بڑی تعداداردوزبان سے ناآشناہوچکی ہے توہم نے ضروری سمجھاکہ اسلامی لٹریچرکو ہندی زبان میں بھی منتقل کیا جائے تاکہ عام مسلمان اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوجائے، یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ ہم نے قرآن کا ہندی میں ترجمہ منتقل کرنے کا کام شروع کیا۔ انہوں نے واضح طورپر یہ بات کہی کہ ہمارے سامنے یہ ایک بڑامسئلہ ہے کہ جو بچے اردوزبان سے ناواقف ہیں انہیں کس طرح اپنا مذہب سکھایاجائے، اس پر ہم سب کو سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے، اللہ کا شکرہے کہ آٹھ سال کی محنت کے بعد قرآن کا ترجمہ ہندی زبان میں منتقل ہوگیا۔مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن کی بعض آیات پر طرح طرح کے اعتراضات بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں ظاہر ہے کہ ایسا قرآن کے مفہوم کو اس کے سیاق وسباق میں نہیں سمجھنے کی وجہ سے ہورہا ہے، چنانچہ ہم نے قرآنی آیات کے سلسلہ میں صحیح رخ اپنا یا تاکہ اس طرح کے اعتراضات کا بھرپورطریقہ سے ازالہ کیا جاسکے۔ انہوں نے آگے کہا کہ اس ترجمہ اورتفسیرکی نوے فیصدبنیادحضرت شیخ الہند کا ترجمہ اورتفسیر ہے، شیخ الہندؒ کے ترجمہ کا امتیازیہ ہے کہ ہر عربی لفظ کے نیچہ اس کا ترجمہ آگیا ہے اور یہ سلیس زبان میں ہے، لیکن ہندی زبان میں یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ ہندی زبان بائیں طرف سے لکھی جاتی ہے، چنانچہ ہر لفظ کے نیچہ اس کا ترجمہ نہیں آسکتاتھا، اس کے پیش نظر ہندی میں آج کے زمانہ کے اعتبارسے کلمات کی جو ترتیب ہونی چاہئے ہم نے اس ترتیب کا خیال رکھا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندی میں ترجمہ کرتے وقت دس فیصدترجمہ کے لئے حضرت تھانوی ؒ کے ترجمہ سے استفادہ کیا گیا ہے، مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ اس ترجمہ اورتفسیر سے ہمارے غیر مسلم بھائی بھی استفادہ کرکے قرآن کے تعلق سے اپنی غلط فہمیاں دورکرسکتے ہیں۔واضح رہے کہ آٹھ سال کی محنت ِشاقہ کے بعد مولاناسید ارشد مدنی کا کیا گیا قرآن کا ہندی میں ترجمہ نہ صرف شائع ہوچکاہے بلکہ انہوں نے اس کی تفسیر بھی (ہندی میں)سادہ اورسلیس زبان میں لکھی ہے، تاکہ تھوڑی بہت بھی ہندی جاننے والا قرآن کی ہدایات واحکامات سے کماحقہ استفادہ کرسکے، اس پس منظرمیں انہوں نے یہ وضاحت کی کہ قرآن کے ترجمہ کی اصل بنیادعربی ہے لیکن جب اسلام ہندوستان میں آیا تو یہاں فارسی زبان کا چلن تھا، اس وقت کے علماء نے اپنی ضرورت کے مطابق عربی زبان کا فارسی زبان میں اسلامی لٹریچر اورقرآن کے ترجمہ کو منتقل کیا۔