نکسلیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ملزم سائبابا کو رہا کرنے کا فیصلہ معطل

نئی دہلی، اکتوبر۔دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی۔این سائبابا اور دیگر کو سپریم کورٹ نے سنیچر کو بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ کے 14 اکتوبر کو کالعدم ماؤنوازوں سے مبینہ تعلق کے معاملے میں بری کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا۔جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کرنا مناسب معاملہ ہے۔بنچ نے حکم نامے میں واضح کیا کہ وہ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے اور حکم کو معطل کر رہا ہے۔ ملزم ضمانت کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران یہ بھی مشاہدہ کیا کہ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مبینہ جرائم سنگین نوعیت کے ہیں اور معاشرے، اتحاد، سالمیت اور ملک کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔بنچ نے کہاکہ "جہاں تک دہشت گرد یا ماؤنواز سرگرمیوں کا تعلق ہے۔ براہ راست شرکت ضروری نہیں ہے، برین واشنگ زیادہ خطرناک ہے۔”سائی بابا کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ آر۔ بسنت نے کہا تھا کہ استغاثہ نے ان پر "نظریاتی جھکاؤ‘‘ کا الزام لگایا تھا۔بنچ نے مسٹر بسنت کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا، جس میں سائبابا کی اپیل زیر التوا ہوتے ہوئے ان کی بیماری کی سنگینی کے پیش نظر (سائبابا) کو گھر میں نظر بند رکھنے کو کہا گیا تھا۔مسٹر بسنت نے کہاکہ "مجھ سے ان کے (سائی بابا کے) گھر میں رہنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جیل جانے میں بھی میری مدد کرنے کے لیے کوئی تربیت یافتہ شخص نہیں ہے۔ یہ زندگی اور صحت کا معاملہ ہے۔”مہاراشٹر حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے مسٹر بسنت کو بنچ کے سامنے پیش کرنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے بنچ سے کہاکہ "حال ہی میں اربن نکسلیوں میں گھر میں نظربندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، لیکن وہ گھر کے اندر سب کچھ کر سکتے ہیں یہاں تک کہ فون سے بھی سب کچھ کرسکتے ہیں۔ براہ کرم گھر میں نظربندی کبھی بھی متبادل نہیں ہو سکتی۔”مسٹر مہتہ نے یہ بھی کہا کہ کیس کے حقائق بہت سنگین ہیں۔ جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی حمایت، پارلیمنٹ کو اکھاڑ پھینکنے کی حمایت، نکسلیوں کے ساتھ میٹنگیں کرنے، ہماری سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے وغیرہ کی کالیں کی گئیں۔سالیسٹر جنرل نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے بنچ کو یہ بھی بتایا کہ ان افراد کو مکمل چھان بین کے بعد قصوروار پایا گیا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اس نے صرف فیصلے کو معطل کیا ہے اور کہا ہے کہ متعلقہ فریق ضمانت کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے تمام ملزمان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اپیل پر سماعت کے لیے 8 دسمبر کی تاریخ مقرر کی۔مہاراشٹر حکومت نے جمعہ کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس میں پروفیسر سائبابا اور دیگر کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ریاستی حکومت نے جمعہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن جسٹس ڈی وائی۔ چندر چوڑ اور جسٹس ہیما کوہلی نے فیصلے پر فوری روک لگانے اور جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔تاہم، سپریم کورٹ نے بعد میں ہفتہ کو اس معاملے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا اور جسٹس شاہ اور ترویدی کی بنچ کے سامنے ریاستی حکومت کی خصوصی درخواست لسٹڈ کیبامبے ہائی کورٹ کی ناگپور ڈویژن بنچ نے جمعہ کو سائی بابا اور دیگر کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت قانونی چارہ جوئی کی منظوری دینے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کے لئے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو پلٹ دیا تھا۔فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے کہاکہ "ہم میرٹ پر نہیں ہارے، یہ صرف منظوری کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔”پروفیسر سائبابا اور دیگر کو ٹرائل کورٹ نے ممنوعہ ماؤنواز تنظیم سے روابط کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔7 مارچ 2017 کو تمام ملزمان کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کی دفعات کے تحت ممنوعہ ماؤنواز تنظیم سے تعلق رکھنے کا قصوروارقرار دیتے وہئے گڈچرولی کی سیشن عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔مجرموں نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔14 اکتوبر کو سماعت مکمل ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے ملزم مہیش کریمان ٹرکی، ہیم کیشودت مشرا، پرشانت راہی نارائن سانگلیکر اور جی این سائبابا کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ ایک اور ملزم وجے نان ٹرکی پہلے ہی ضمانت پر رہا تھے، جب کہ ایک اور پانڈو پورہ نروٹے کی اپیل زیر التوا رہنے کے دوران موت ہوگئی تھی۔نکسلیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ملزم سائبابا کو رہا کرنے کا فیصلہ معطل
نئی دہلی، اکتوبر۔دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی۔این سائبابا اور دیگر کو سپریم کورٹ نے سنیچر کو بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ کے 14 اکتوبر کو کالعدم ماؤنوازوں سے مبینہ تعلق کے معاملے میں بری کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا۔جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کرنا مناسب معاملہ ہے۔بنچ نے حکم نامے میں واضح کیا کہ وہ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے اور حکم کو معطل کر رہا ہے۔ ملزم ضمانت کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران یہ بھی مشاہدہ کیا کہ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مبینہ جرائم سنگین نوعیت کے ہیں اور معاشرے، اتحاد، سالمیت اور ملک کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔بنچ نے کہاکہ "جہاں تک دہشت گرد یا ماؤنواز سرگرمیوں کا تعلق ہے۔ براہ راست شرکت ضروری نہیں ہے، برین واشنگ زیادہ خطرناک ہے۔”سائی بابا کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ آر۔ بسنت نے کہا تھا کہ استغاثہ نے ان پر "نظریاتی جھکاؤ‘‘ کا الزام لگایا تھا۔بنچ نے مسٹر بسنت کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا، جس میں سائبابا کی اپیل زیر التوا ہوتے ہوئے ان کی بیماری کی سنگینی کے پیش نظر (سائبابا) کو گھر میں نظر بند رکھنے کو کہا گیا تھا۔مسٹر بسنت نے کہاکہ "مجھ سے ان کے (سائی بابا کے) گھر میں رہنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جیل جانے میں بھی میری مدد کرنے کے لیے کوئی تربیت یافتہ شخص نہیں ہے۔ یہ زندگی اور صحت کا معاملہ ہے۔”مہاراشٹر حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے مسٹر بسنت کو بنچ کے سامنے پیش کرنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے بنچ سے کہاکہ "حال ہی میں اربن نکسلیوں میں گھر میں نظربندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، لیکن وہ گھر کے اندر سب کچھ کر سکتے ہیں یہاں تک کہ فون سے بھی سب کچھ کرسکتے ہیں۔ براہ کرم گھر میں نظربندی کبھی بھی متبادل نہیں ہو سکتی۔”مسٹر مہتہ نے یہ بھی کہا کہ کیس کے حقائق بہت سنگین ہیں۔ جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی حمایت، پارلیمنٹ کو اکھاڑ پھینکنے کی حمایت، نکسلیوں کے ساتھ میٹنگیں کرنے، ہماری سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے وغیرہ کی کالیں کی گئیں۔سالیسٹر جنرل نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے بنچ کو یہ بھی بتایا کہ ان افراد کو مکمل چھان بین کے بعد قصوروار پایا گیا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اس نے صرف فیصلے کو معطل کیا ہے اور کہا ہے کہ متعلقہ فریق ضمانت کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے تمام ملزمان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اپیل پر سماعت کے لیے 8 دسمبر کی تاریخ مقرر کی۔مہاراشٹر حکومت نے جمعہ کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس میں پروفیسر سائبابا اور دیگر کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ریاستی حکومت نے جمعہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن جسٹس ڈی وائی۔ چندر چوڑ اور جسٹس ہیما کوہلی نے فیصلے پر فوری روک لگانے اور جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔تاہم، سپریم کورٹ نے بعد میں ہفتہ کو اس معاملے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا اور جسٹس شاہ اور ترویدی کی بنچ کے سامنے ریاستی حکومت کی خصوصی درخواست لسٹڈ کیبامبے ہائی کورٹ کی ناگپور ڈویژن بنچ نے جمعہ کو سائی بابا اور دیگر کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت قانونی چارہ جوئی کی منظوری دینے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کے لئے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو پلٹ دیا تھا۔فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے کہاکہ "ہم میرٹ پر نہیں ہارے، یہ صرف منظوری کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔”پروفیسر سائبابا اور دیگر کو ٹرائل کورٹ نے ممنوعہ ماؤنواز تنظیم سے روابط کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔7 مارچ 2017 کو تمام ملزمان کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کی دفعات کے تحت ممنوعہ ماؤنواز تنظیم سے تعلق رکھنے کا قصوروارقرار دیتے وہئے گڈچرولی کی سیشن عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔مجرموں نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔14 اکتوبر کو سماعت مکمل ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے ملزم مہیش کریمان ٹرکی، ہیم کیشودت مشرا، پرشانت راہی نارائن سانگلیکر اور جی این سائبابا کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ ایک اور ملزم وجے نان ٹرکی پہلے ہی ضمانت پر رہا تھے، جب کہ ایک اور پانڈو پورہ نروٹے کی اپیل زیر التوا رہنے کے دوران موت ہوگئی تھی۔

Related Articles