بلڈوزر کارروائی معاملے میں یوپی حکومت کے حلف نامہ پر جمعیۃ علما کا اعتراض
تین دن میں جوابی حلف نامہ داخل کرے گی۔ مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی، جون۔یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی جانب سے داخل عرضی پرسپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت کے دوران جمعیۃ علمائے ہند نے یو پی حکومت کے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کرتے ہوئے جواب دینے کے لئے تین دن کی مہلت طلب کی جسے کورٹ نے منظور کرلیا۔
اترپردیش میں بغیر عدالتی حکم کے غیر ْقانونی انہدامی کارروائی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی، جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت سے یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا جواب داخل کرنے کے لیے وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرلیا۔سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس سی ٹی روی کمار اور جسٹس سدھانشو دھولیہ کو ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بتایا کہ یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر انہیں اعتراض ہے ۔لہٰذا وہ جوابی حلف نامہ داخل کرنا چاہتے ہیں جس پر سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔ سالیسٹرجنر ل کی جانب سے اعتراض نہیں کیے جانے کے بعدعدالت نے سماعت اگلے (29 جون) بدھ تک ملتوی کردی اور جمعیۃ علماء ہند کو اجازت دی کہ وہ اس درمیان جوابی حلف نامہ داخل کرے۔جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ یوپی کے مختلف شہروں میں انہدامی کاررائی انجام دی گئی ،خاص طور پر سہارنپور میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے۔جبکہ حلف نامہ میں صرف تین جگہوں کا ہی ذکر کیا گیاہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی حکومت عدالت سے حقائق کو چھپا رہی ہے۔جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ہمارے وکلاء یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا جواب دیں گے اور عدالت کے روبرو ان سب حقائق کو پیش کیا جائے گا جسے جان بوجھ کر یوپی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں شامل نہیں کیاہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء نتیا راما کرشنن اور سی یو سنگھ پیش ہوئے تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ کارروائی پر عدالت نے غیر قانونی بلڈوزر انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیے جانے کے بعد بھی یوپی میں غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے، جس پر روک لگانا ضروری ہے۔ نیز ان افسران کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔سینئر وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ایمرجنسی کے دوران بھی ایسی بربریت نہیں ہوئی تھی جیسی آج یو پی میں کی جارہی ہے۔