لکھیم پور تشدد: سپریم کورٹ نے آشیش کی ضمانت منسوخی کی عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھا
نئی دہلی، اپریل ۔ سپریم کورٹ نے مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا اور لکھیم پور کھیری تشدد معاملے کے اہم ملزم آشیش مشرا کی الہ آباد ہائی کورٹ سے دی گئی ضمانت کو منسوخ کرنے کی درخواستوں پر پیر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس این جسٹس وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی بنچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔اتر پردیش حکومت اور متوفی کسانوں کے اہل خانہ کے دلائل سننے کے بعد جسٹس رمنا نے کہا کہ ہم اس پر فیصلہ سنائیں گے۔ریاستی حکومت کا موقف پیش کررہے وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے بنچ کے سامنے دلیل دی کہ کیس سے متعلق گواہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے، کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ تشدد کیس میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے قائم کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے گواہوں پر خطرے کے خدشے کی وجہ سے آشیش کو ہائی کورٹ سے ملی ضمانت کے خلاف اپیل دائر کرنے کی سفارش کی تھی۔لیکن ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ تمام گواہوں کو پولیس تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ حکومت ایس آئی ٹی کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ضمانت کی مخالفت کرنے والے کچھ عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل دشینت دیو نے بینچ کے سامنے گواہوں کو دھمکیوں کے معاملے کو بھرپور طریقے سے اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ ایک گواہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاست میں اقتدار میں واپسی کا حوالہ دیتے ہوئے دھمکی دی گئی۔ مسٹر دیو نے بنچ کے سامنے مذکورہ گواہ کی شکایت پڑھتے ہوئےکہا ’’اب بی جے پی اقتدار میں ہے،دیکھنا تیرا کیا حال کرتا ہوں۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس طرح کی دھمکیاں سنجیدہ معاملہ نہیں ہے۔پچھلی سماعت کے دن (30 مارچ) ایس آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے ریاستی حکومت سے اہم ملزم کی ضمانت کے خلاف اپیل دائر کرنے کی سفارش کی تھی۔بنچ نے ایس آئی ٹی کی سفارش کے پیش نظر ریاستی حکومت سے پیر تک اپنا جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 10 فروری کو آشیش کو ضمانت دی تھی۔ متاثرہ کسانوں اور دو وکلاء کی جانب سے ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔اترپردیش کے لکھیم پور میں تین اکتوبر 2021 کو آشیش کی کار سے چار کسانوں کے مارے جانے کے الزامات ہیں۔ متوفی کسانوں کے رشتہ داروں کی طرف سے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے ضمانت منسوخ کرنے کی مانگ کرتے ہوئے عدالت عظمی میں عرضی دائر کی تھی۔ اہل خانہ کی قیادت کررہے جگجیت سنگھ کی جانب سے وکیل بھوشن نے فروری میں اہم ملزم کو ضمانت ملنے کے بعد عدالت عظمی میں خصوصی اجازت کی عرضی داخل کی۔ عرضی گزار نے ضمانت دیئے جانے کے لئے اختیار کیے گئے معیارات کو قانونی عمل اور انصاف کو نظر انداز کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔کسانوں کے اہل خانہ کی جانب سے کچھ دن پہلے ایڈوکیٹ سی ایس پانڈا اور شیو کمار ترپاٹھی نے بھی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ میں خصوصی اجازت کی عرضی دائر کی تھی۔ ان وکلاء کی عرضی پر سپریم کورٹ نے معاملے کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی مبینہ طور پر کار سے کچل کر چار کسانوں کی موت ہونے کے بعد بھڑکے تشدد میں دو بی جے پی کارکنوں کے علاوہ، ایک دیگر کار ڈرائیور اور ایک صحافی کی موت ہوگئی تھی۔اس معاملے میں وکلاء مسٹر پانڈا اور مسٹر ترپاٹھی نے ایک مفاد عامہ کی عرضی کے گزشتہ سال سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد پورے معاملے کی جانچ کے لیے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس راکیش کمار جین کی قیادت میں ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی۔متوفی کسانوں کے رشتہ داروں کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے 10 فروری کے اپنے حکم میں آشیش کو ضمانت دینے میں ’’ غیر مناسباور من مانے ڈھنگ سے ضمیر کا استعمال‘‘ کیا۔درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ انہیں کئی ضروری دستاویزات ہائی کورٹ کے نوٹس میں لانے سے روکا گیا ہے۔ ان کے وکیل 18 جنوری 2022 کو تکنیکی وجوہات کی بنا پر ورچوئل سماعت سے ’ڈس کنکٹ‘ کردیا گیا اور اس سلسلے میں عدالتی عملے سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کال کنیکٹ نہیں ہوپائی۔ عرضی گزار کا دعویٰ ہے کہ اس طرح ان کی آشیش کی ضمانت کی مخالفت کرنے والی عرضی کو موثر سماعت کے بغیر ہی خارج کردیا گیا تھا۔جگجیت سنگھ کی قیادت میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا رخ کرنے کی وجوہات میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے آشیش کی ضمانت کے خلاف اپیل دائر نہیں کرنا بھی ایک وجہ ہے۔کسانوں کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ اترپتردیش میں اسی پارٹی کی حکومت ہے، جس پارٹی کی حکومت میں ملزم آشیش کے والد مرکزی وزیر ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ریاستی حکومت نے ضمانت کے خلاف عدالت عظمی میں عرضی دائر نہیں کی تھی۔عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ جرم کی سنگین نوعیت پر غور کرنے میں ناکام رہی۔ گواہوں کے معاملے میں ملزم کا موقف انصاف سے بھاگنے، جرم کو دہرانے، گواہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے خدشات سے بھرا ہوا ہے۔پولیس نے 3 اکتوبر کے واقعہ کے سلسلے میں آشیش کو 9 اکتوبر کو گرفتار کیا تھا۔3 اکتوبر کو اتر پردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کے لکھیم پور کھیری کے ایک پروگرام کی مخالت کرنے کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے۔ یہ کسان مرکز کے اس وقت کے تین زرعی قوانین (جو اب منسوخ ہو چکے ہیں) کے خلاف ایک طویل عرصے سے احتجاج کر رہے تھے۔مرکزی وزیر مملکت کے بیٹے آشیش کو دی گئی ضمانت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کا جواب دیتے ہوئے، اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ضمانت کی مؤثر طریقے سے مخالفت نہ کرنے پر لگائے گئے الزامات ’’مکمل طور پر غلط اور جھوٹے‘‘ہیں۔حکومت نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے آشیش کو ضمانت دینے کے حکم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ متعلقہ افسران کے سامنے زیر غور ہے۔ گواہوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے عدالت عظمیٰ کے حکم پر حکومت نے کہا تھا کہ واقعے سے متعلق 98 گواہوں کو سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے۔ سبھی کی حفاظت کا جائزہ باقاعدگی سے لیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ٹیلی فون کے ذریعےپولیس نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ گواہوں نے 20 مارچ کو اپنی حفاظت پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ دوران گفتگو گواہوں کی جانب سے بتایا گیا کہ اگر انہیں اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوئی تو وہ فوری طور پر اپنے متعلقہ اضلاع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے رابطہ کرکے مدد لیں گے۔اس معاملے میں وکلاء مسٹر پانڈا اور مسٹر ترپاٹھی نے ایک مفاد عامہ کی عرضی کے گزشتہ سال سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد پورے معاملے کی جانچ کے لیے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس راکیش کمار جین کی قیادت میں ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی۔متوفی کسانوں کے رشتہ داروں کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے 10 فروری کے اپنے حکم میں آشیش کو ضمانت دینے میں ’’ غیر مناسباور من مانے ڈھنگ سے ضمیر کا استعمال‘‘ کیا۔درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ انہیں کئی ضروری دستاویزات ہائی کورٹ کے نوٹس میں لانے سے روکا گیا ہے۔ ان کے وکیل 18 جنوری 2022 کو تکنیکی وجوہات کی بنا پر ورچوئل سماعت سے ’ڈس کنکٹ‘ کردیا گیا اور اس سلسلے میں عدالتی عملے سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کال کنیکٹ نہیں ہوپائی۔ عرضی گزار کا دعویٰ ہے کہ اس طرح ان کی آشیش کی ضمانت کی مخالفت کرنے والی عرضی کو موثر سماعت کے بغیر ہی خارج کردیا گیا تھا۔جگجیت سنگھ کی قیادت میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا رخ کرنے کی وجوہات میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے آشیش کی ضمانت کے خلاف اپیل دائر نہیں کرنا بھی ایک وجہ ہے۔کسانوں کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ اترپتردیش میں اسی پارٹی کی حکومت ہے، جس پارٹی کی حکومت میں ملزم آشیش کے والد مرکزی وزیر ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ریاستی حکومت نے ضمانت کے خلاف عدالت عظمی میں عرضی دائر نہیں کی تھی۔عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ جرم کی سنگین نوعیت پر غور کرنے میں ناکام رہی۔ گواہوں کے معاملے میں ملزم کا موقف انصاف سے بھاگنے، جرم کو دہرانے، گواہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے خدشات سے بھرا ہوا ہے۔پولیس نے 3 اکتوبر کے واقعہ کے سلسلے میں آشیش کو 9 اکتوبر کو گرفتار کیا تھا۔3 اکتوبر کو اتر پردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کے لکھیم پور کھیری کے ایک پروگرام کی مخالت کرنے کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے۔ یہ کسان مرکز کے اس وقت کے تین زرعی قوانین (جو اب منسوخ ہو چکے ہیں) کے خلاف ایک طویل عرصے سے احتجاج کر رہے تھے۔مرکزی وزیر مملکت کے بیٹے آشیش کو دی گئی ضمانت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کا جواب دیتے ہوئے، اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ضمانت کی مؤثر طریقے سے مخالفت نہ کرنے پر لگائے گئے الزامات ’’مکمل طور پر غلط اور جھوٹے‘‘ہیں۔حکومت نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے آشیش کو ضمانت دینے کے حکم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ متعلقہ افسران کے سامنے زیر غور ہے۔گواہوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے عدالت عظمیٰ کے حکم پر حکومت نے کہا تھا کہ واقعے سے متعلق 98 گواہوں کو سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے۔ سبھی کی حفاظت کا جائزہ باقاعدگی سے لیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ٹیلی فون کے ذریعےپولیس نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ گواہوں نے 20 مارچ کو اپنی حفاظت پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ دوران گفتگو گواہوں کی جانب سے بتایا گیا کہ اگر انہیں اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوئی تو وہ فوری طور پر اپنے متعلقہ اضلاع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے رابطہ کرکے مدد لیں گے۔