نامکمل ماحولیاتی اہداف: کرہ ارض کو درپیش خطرات بڑھتے ہوئے

لندن،اکتوبر۔ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ہماری کوششوں کی اگر موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو زمینی درجہ حرارت میں 2.7 سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ پیرس میں طے شدہ ہدف، 1.5 ڈگری سے کہیں زیادہ ہے۔ وقت کم ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی اقدامات کا حجم بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تمام انسانی منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ سن 2015 میں اقوام عالم نے ماحولیاتی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے پر اتفاق کیا تھا۔ پیرس معاہدے کے تحت موجودہ موسمیاتی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری اضافے تک محدود رکھنے پر عالمی برادری نے رضامندی ظاہر کی تھی۔ ابھی تک فوسل فیول کے جلانے میں کمی اور سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے چند دوسرے اقدامات پر کسی حد تک عمل کیا گیا۔ یہ نہایت اہم ہے کہ ماحول میں بڑھتی حدت کو کم کرنے سے لاکھوں انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ زمین بردگی کے وسیع سلسلے کو روکنا ممکن ہو گا تاکہ ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جنگلی و آبی حیات کو بچایا جا سکے گا۔ اقوام متحدہ کے حکومتوں کے مابین قائم کلائمیٹ چینج کے پینل (IPCC) کی اگست میں جاری ہونے والی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں 1.07 سنٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق ابھی درجہ حرارت ایک ڈگری سے کچھ اوپر گیا ہے اور اس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اس سے زیادہ ہونے پر کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل برائے کلائمیٹ چینج کے مطابق اس وقت سمندر کی سطح 20 سینٹی میٹر (قریب آٹھ انچ) بلند ہو چکی ہے۔ اب سمندر کی سطح مزید بلند ہوئی تو لاکھوں جانوں کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ اس کی مثال بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب ہیں، جن کی وجہ سے نشیبی علاقوں کے ہزروں مکینوں کو بے گھری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماحولیات پر نگاہ رکھنے والی ویب سائٹ کاربن بریف نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک سمندروں کی سطح 48 سینٹی میٹر بلند ہو سکتی ہے اور یہ بھی تب اگر درجہ حرارت کو ایک ڈگری تک برقرار رکھا۔ بصورتِ دیگر دو ڈگری بلند ہونے کی صورت میں سمندری سطح 56 سینٹی میٹر بلند ہو جائے گی۔ آئی پی سی سی کے مطابق صنعتی انقلاب سے قبل شدید بارشیں ہر 10 برس بعد دیکھی جاتی تھیں لیکن اب یہ ہر سال کا سلسلہ بن کر رہ گیا ہے۔ بارشوں کی سالانہ اوسط 30 فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق مزید درجہ حرارت بڑھا تو بارشوں کی سالانہ اوسط میں 50 فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں سیلابوں میں بھی یقینی اضافہ ہو گا جو انسانوں کی بے گھری اور ہلاکتوں کا سبب بنے گا۔ اب زیادہ بارشوں کے تناظر میں بھارت کی مثال لیں تو مون سون کے علاوہ دوسری بارشوں سے مٹی کے تودے زیادہ گریں گے اور سیلابوں سے عام انسانوں کی زندگیاں دوبھر ہو کر رہ جائیں گی۔ کرہ ارضی پر درجہ حرارت بڑھنے سے جہاں کچھ علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوں گی تو کسی دوسرے حصے کے علاقے بارش کو ترسیں گے۔ بارشوں کے نہ ہونے سے ان علاقوں میں خشک سالی بڑھے گی اور بستیوں میں خاک اڑنا شروع ہو جائے گی۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق سن 2019 میں وسطی امریکی اقوام کے ایک علاقے میں بارشوں کے نہ ہونے سے وہ ڈرائی کوریڈور‘ یا خشک راستہ بن کر رہ گیا تھا اور اس علاقے میں فصلوں کی بہت بڑی تباہی دیکھی گئی تھی۔ اس خشک سالی کے سنگین معاشی اثرات نمودار ہو چکے ہیں۔ اسی خشک سالی کے پہلو میں سینٹرل امریکا کو نومبر سن 2020 میں دو سمندری طوفانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ خشک سالی، کم بارشیں، سیلاب اور سمندری طوفانوں کے ساتھ ساتھ کیلیفورنیا سے جنوبی یورپ اور انڈونیشیا سے آسٹریلیا میں تیز ہواؤں اور گرمی کی شدید لہر سے جنگلوں میں لگنے والی آگ نے بھی بے بہا معاشی و معاشرتی نقصانات کیے ہیں۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ درجہ حرارت کے بڑھتے عمل پر قابو نہ پایا گیا تو شدید گرمی کی لپیٹ میں آنے والے انسانوں کی تعداد 420 ملین ہو جائے گی۔ بظاہر ماحولیات کے حوالے سے یا درجہ حرارت بڑھنے کے اعداد و شمار چھوٹے اعداد دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے وسیع اثرات کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

Related Articles