سر سید احمد خان عظیم تعلیمی رہنما اورسچے محب وطن تھے  

ڈاکٹرسلطان شاکرہاشمی
سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے ،مسلمانوں کے عظیم مصلح، رہنما اور مصنف علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی، ایک سادہ صفت شخص میر تقی ولد سید ہادی کے یہاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے باب داداہرات سے شاہجہان کے عہد میں ہندوستان آئے تھے۔ والد نقشبندی بزرگ شاہ غلام علی کے مرید تھے اور نانا دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خاں بہادر مصلح جنگ تھے جو پہلے کمپنی کے مدرسہ کلکتہ میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے اور پھر اکبر شاہ ثانی کے وزیر ہو گئے۔ سید احمد خاں بچپن ہی سے والد کے ہمراہ بادشاہ کے دربار میں جایا کرتے تھے۔ سید احمد خاں کی تربیت زیادہ تر ان کی والدہ نے کی جو بڑی دانش مند خاتون تھیں۔ بچپن کے مذہبی ماحول نے ان پر خاصا اثر کیا۔ دہلی میں ان دنوں علوم اسلامی کے دو بڑے مراکز تھے۔ ایک شاہ عبدالعزیز کا مدرسہ، دوسرا مرزا مظہر جان جاناں کے جانشین شاہ غلام علی کی خانقاہ۔ سرسید نے دونوں سے خوب استفادہ کیا۔ شاہ غلام علی نے ہی ان کا نام احمد رکھا تھا اور ان کی بسم اللہ کی تقریب بھی شاہ صاحب ہی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ سید احمد خاں کی تعلیم بھی انہی پرانے اصولوں پر ہوئی پہلے قرآن مجید پڑھا پھر فارسی کی درسی کتابیں مثلاً کریما، خالق باری، آمد نامہ، گلستان اور بوستاں وغیرہ پڑھیں۔ عربی میں شرح ملا، شرح تہذیب، مختصر معانی اور معلول کا کچھ حصہ پڑھا۔ہندسہ اور ریاضی کی تعلیم اپنے ماموں زین العابدین خاں اور طب کی تعلیم حکیم غلام حیدر سے حاصل کی۔
والد کے انتقال کے وقت ان کی عمر 22 سال تھی۔ 1841 ء  میں منصفی کا امتحان پاس کر کے مین پوری میں جج بن گئے اور پھر ترقی کرتے ہوئے ’’جج سمال کاز‘‘ (منصف عدالت خفیہ ہو گئے) اس حیثیت سے فتح پور سیکری، دہلی، رہتک، بخبور، مراد آباد، غازی پور، علی گڑھ اور بنارس میں تھوڑا تھوڑا عرصہ رہے اور 1879 ء میں انگلستان بھی گئے۔ 1876 ء میں ملازمت سے علیحدہ ہو کر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے علی گڑھ میں مقیم ہو گئے۔ حکومت وقت کی طرف سے انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ اس لئے سر سید کے نام سے مشہور ہوئے۔ 1878 ء میں امپیریل کونسل کے رکن نامزد ہوئے۔ 1882 ء میں ایجوکیشن کمیشن کے رکن رہے اور 1887 ء میں پبلک سروس کمیشن کے رکن نامزد ہوئے۔ 1888 ء میں انہیں سی ایس آئی کا خطاب ملا۔ 1889 ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ آخری برسوں میں ان کی صحت خاصی خراب رہتی تھی اسی حالت میں کام کرتے رہے اور با لآخر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔سر سید نے اپنی ملازمت کے 45 سال بڑی نیک نامی سے بسر کئے تھے۔ اس دوران میں انھوں نے سرکاری فرائض کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور ترویج علوم کے لئے بھی وقت نکالا لیکن سرکاری ملازمت کو جب اپنے مشن کی راہ میں حائل دیکھا تو اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور مذہبی اور قومی مصلح کی حیثیت سے سر گرم عمل ہو گئے۔ سر سید کی زندگی 3 حیثیتوں سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ وہ مصنف بھی تھے، مذہبی مصلح بھی اور قومی رہنما بھی تھے۔ مصنف کی حیثیت سے انھوں نے تاریخ اور مذہبی مباحث سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ ان کی مشہور کتابیں انہی مضامین کے متعلق ہیں۔ دوران ملازمت انہوں نے یہ کتابیں بھی لکھیں۔
 ’’انتخاب الاخوین یعنی قوائد دیوانی کا خلاصہ‘‘ قول متین درابطال حرکتِ زمین ’’تسہیل فی جر ثقیل‘‘، ’’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘‘ اور آثارالصنادید‘‘ (1847 ء ) جو دہلی اور نواح دہلی کی عمارت کی تحقیقی تاریخ ہے۔ اسے دیکھ کر انہیں رائل ایشیا ٹک سوسائٹی لنڈن کا فیلو مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سر سید نے ’’آئین اکبری‘‘ اور تاریخ فیروز شاہی‘‘ کی تصحیح کی ’’تزک جہانگیری‘‘ کو شائع کرایا اور ’’تاریخ سرکشی بجنور‘‘ کو مرتب کیا۔ مذہبی اعتبار سے سر سید زیادہ تر سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید سے متاثر تھے۔ شروع میں سر سید کا مسلک یہ تھا کہ انگریزوں اور مسلمانوں کی نفرت دور کرنے ہی میں بہتری ہے چنانچہ انہوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات کو خوشگوار کرنے کے لئے تصانیف کا سہارا لیا۔ ’’تحقیق لفظ نصاریٰ‘‘ رسالہ احکام طعام اہل کتاب (1868 ء) کے علاوہ بائیبل کی تفسیر ’’تبین الکلام‘‘ بھی اسی زمانے میں لکھی گئی۔ 1866 ء میں انہوں نے سائنٹیفک سوسائٹی بھی قائم کی جس نے اخبار ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ ملازمت کے بعد سر سید نے نتیجہ خیز تصانیف کا ایک ڈھیر سا لگا دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے سر ولیم میمور کی کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے جواب میں ’’خطبات احمدیہ‘‘ (1870ء ) میں تصنیف کی۔ اس کے بعد تفسیر القرآن لکھی،جو نامکمل رہی۔ یہ تفسیر سترھویں پارے تک لکھ پائے تھے کہ انتقال ہو گیا۔ اسی دور میں رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجراء ہوا جو 24 دسمبر 1870 ء  سے شروع ہوا اور 6 سال کے بعد بند ہو گیا۔ اس کا دوسرا دور 2 سال 5 ماہ کا ہے اور تیسرا دور 3 برس کا ہے۔ اس رسالے میں دیگر اہل قلم کے ساتھ ساتھ سر سید کے مضامین بھی چھپتے تھے جو زیادہ تر مذہبی، اصلاحی اور قومی مقاصد کے حامل ہوتے تھے۔ مذہبی مصلح کی حیثیت سے سر سید سب سے پہلے مجتہد تھے جنہوں نے جدید علم الکلام کی ضرورت کو محسوس کیا۔ یہ وہ دور ہے جب مغرب میں سائنسی اور مادی ترقی زوروں پر تھی اور اہل یورپ مذہب اور سائنس کو دو الگ الگ خانوں میں رکھ چکے تھے۔ اس کا اثر مسلمانوں پر بھی ہو رہا تھا۔سر سید نے جدید الکلام کی بنیاد ڈالی جس کی بناء پر سر سید نے قرآن کے تمام مندرجات کو عقل اور سائنس کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج سر سید ہی کے لگائے ہوئے پودے نے برگ و بار ہی کیا ثمر تک دینا شروع کر دئیے ہیں۔ مسلمان ایک بار پھر اقوام عالم میں اپنا وجود منوا رہے ہیں۔ بے شک سر سید کے جدید علم الکلام پر کئی طرح کے اعتراضات ہو سکتے ہیں لیکن اس امر کا اعتراض ضروری ہے کہ سر سید نے جو کچھ کیا قوم کی بہتری کے خیال سے کیا۔ خود انہی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’میں کہتا ہوں کہ اگر لوگ تقلید نہ چھوڑیں گے اور خاص اس روشنی کو جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے، نہ تلاش کریں گے اور حال کے علوم سے مذہب کا مقابلہ نہ کریں گے تو مذہب اسلام ہندوستان سے معدوم ہو جائے گا۔ اسی خیر خواہی نے مجھے برانگیختہ کیا ہے، جو میں ہر قسم کی تحقیقات کرتا ہوں اور تقلید کی پرواہ نہیں کرتا۔ ورنہ آپ کو خود معلوم ہے کہ میرے نزدیک مسلمان رہنے کے لئے آئمہ کبار درکنار، مولوی جیو کی بھی تقلید کافی ہے۔کلمہ طیبہ کہہ لینا ہی طہارت ہے کہ کوئی نجاست باقی نہیں رہتی‘‘ اگرچہ سر سید نے کئی مسائل میں جمہور علماء سے اختلاف بھی کیا ہے مگر ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ ایسا اختلاف بڑے بڑے علماء ومشائخ نے کیا ہے۔ اور اگر اختلافات کی بناء پر آدمی کا فر ٹھہرایا جائے تو پھر اسلام میں کوئی بھی قابلِ ذکر ہستی مسلمان نہیں رہتی۔
اردو ادب پر بھی سر سید کا گہرا اثر پڑا۔ ان کی بدولت ایک نئے دبستان کا آغاز ہوا جس نے سادہ و سلیس انداز میں نثر نگاری شروع کی اور عقلیت اور مقصدیت، ٹھوس اور جامع مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کرنا شروع کیا۔ اردو میں انشائیہ نگاری اور تحقیق و تنقید کی شاخوں کا اجراء ہوا۔ اردو میں علمی اور سنجیدہ نثر نگارری کے وہ خود بانی تھے، جسے ان کے رفقاء نے بہت ترقی دی۔ ادب میں حقیقت سچائی اورفطرت کی تحریک انہی نے اٹھائی، جس کی بناء پر انہیں ’’نیچرلی‘‘ (فطرت پرست) بھی کہا گیا۔ بحیثیت رہنمائے قوم سر سید کا سب سے اہم کارنامہ ان کی تعلیمی تحریک ہے انہوں نے مسلمانوں کے مصائب کا حل تعلیمی ترقی میں مضمرجانا اور پھر اس کے لئے سر گرم عمل ہو گئے۔ لندن سے واپسی پر انہوں نے ایک کمیٹی برائے خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کے نام سے قائم کی اور تعلیم کے موضوع پر مضمون لکھوا کر ایک درس گاہ کا آغاز کیا۔ مئی 1875ء مین علی گڑھ میں اس مدرسے کا افتتاح ہوا۔ دو سال بعد یعنی جنوری 1877 ء میں اسے کالج کا درجہ ملا اور اگلے برس سے یہاں کالج کی تعلیم کا آغاز ہو گیا۔ یہ ایک طرح کی اقامتی درس گاہ تھی، اس لئے اس کے ساتھ ہوسٹل بھی تھے۔ طلباء کی ہر طرح سے تربیت کی جاتی تھی۔ کہنے کو تو یہ کالج تھا مگر حقیقت میں مسلمانوں کا اہم سیاسی مرکز تھا۔ سر سید کی سیاسی خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ دو قومی نظریہ کا واضح اعلان انہی نے کیا۔ یہ چیز اردو ہندی زبانوں کے جھگڑے سے چلی اور پھر سر سید جو پہلے اتحاد مذہب کے قائل تھے، مسلمانوں کے لئے علیحدہ سیاسی حقوق لینے کے لئے تل گئے۔ ان کی اس سیاست کی تربیت گاہ علی گڑھ کالج ہی تھا۔ اگرچہ یہ کالج بڑے بڑے علماء تو تیار نہ کر سکے جیسا کہ سر سید نے کہا تھا کہ فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہو گا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ کا تاج سر پر ہو گا لیکن یہاں سے ایسے طلباء تربیت پا کر نکلے جو سیاسی میدان کے ماہر ثابت ہوئے۔ جہاں تک سر سید کے کردار کا تعلق ہے آج تک کسی نے بھی اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ وہ دیانت دار، مخلص اور صاف گو شخص تھے۔ ان کا جذبہ مستقیم اور راست بازی کا تھا۔ خود کو اکثر ’’نیم چڑھا وہابی‘‘ کہتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ معاملات کو جیسا صحیح سمجھتے ہیں کرتے ہیں۔ اب اگر لوگ انہیں غلط سمجھیں تو اس کی پرواہ نہیں۔ انہوں نے جو جاہ واقتدار حاصل کیا، اس سے اگر اپنی ذات کے لئے کچھ کرنا چاہتے تو مشکل نہ تھا۔ وہ اتنی اہم شخصیت کے مالک تھے کہ حکومت وقت سے ایک مستقل ریاست بطور جاگیر لے سکتے تھے۔ مگر بقول ’’آرنلڈ‘‘ نہ اس کے پاس رہنے کو گھر تھا‘ نہ مرنے کو اور جب وہ مرا تو اس کی تجہیز و تکفین کیلئے ایک پیسہ بھی گھر سے نہ نکلا۔ یہ شانِ قلندری نہ تھی تو اور کیا تھا؟‘‘۔

Related Articles