زندگی کی سچائی کو جانئے،دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی فکر کیجئے

ابونصر فاروق:
(۱) پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پید اکیے، چاہے وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اُن کی اپنی جنس(یعنی انسانوں)میں سے یا اُن چیزوں میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔(یٰسین:۳۶) نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر بڑھت پا سکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔(یٰسین:۴۰)
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات اتنی وسیع بنائی ہے کہ اس کی چوہدی کا جاننا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اس میں اتنی طرح کی مخلوق پیدا کی ہے کہ اُس کا صحیح علم انسان زندگی بھر حاصل کر ہی نہیں سکتا ہے۔انسانی فطرت، عادت اور نفسیات میں اتنا Variationہے کہ انسان کو جاننے اور سمجھنے کا ہر دعویٰ غلط اور جھوٹا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ ایک اوراکیلا ہے اسی طرح اُس نے انسانوں کو بھی ایک اکیلا اور تنہا پیدا کیا ہے۔دوسروں کو تو چھوڑیے دو سگے بھائی اور دو سگی بہنیںایک طرح کی نہیں ہوتی ہیں۔
(۲) ایک دوسری حقیقت یہ بھی سامنے رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بچھو کو ڈنک مارنے اور سانپ کو کاٹنے کے لئے پیدا کیا ہے۔شہد کی مکھی کو شہد (یعنی غذا)بنانے اور ریشم کے کیڑے کو ریشم(یعنی لباس)بنانے کے لئے پیدا کیا ہے۔یہ سب زندگی بھر اپنی فطرت کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہیں ۔انسان ان کی فطرت کو بدل نہیں سکتا ہے۔بچھو کو ڈنک مارنے اور سانپ کو کاٹنے کا موقع بھی اللہ ہی دیتا ہے۔وہ اپنی مرضی اور ارادے سے نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں۔’’کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کی اجازت سے ہی آتی ہے۔‘‘(تغابن:۱۱)
(۳) پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پید اکیے، چاہے وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اُن کی اپنی جنس(یعنی انسانوں)میں سے یا اُن چیزوں میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔(یٰسین:۳۶) نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر بڑھت پا سکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔(یٰسین:۴۰)
بنیادی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے ایسا کیا ہی کیوں ؟ وہ ایسی موذی مخلوق کو پیدا ہی نہیں کرتا۔تو اس سوال کا جواب دنیا میں کوئی نہیں دے سکتا ہے سوائے قرآن کے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اُس نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے۔پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پید اکیے، چاہے وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اُن کی اپنی جنس(یعنی انسانوں)میں سے یا اُن چیزوں میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔(یٰسین:۳۶)اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے اُس کو بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔دراصل کائنات جن اصولوں کے مطابق بنائی گئی ہے اُن میں ایک چیز ضد(الٹا) ہے۔اور یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اسی وجہ سے ہر چیز پہچانی جاتی ہے۔اگر کسی بھی چیز کی ضد نہیں ہوتی تو اُس کو پہچانناممکن نہیں ہوتا۔رات سے دن کی اور دن سے رات کی ،گرمی سے سردی کی اور سردی سے گرمی کی،خوشی سے غم اور غم سے خوشی کی، راحت سے مصیبت کی اور مصیبت سے راحت کی ، اچھائی کی برائی سے اور برائی کی اچھائی سے پہچان ہوتی ہے۔اس لئے یہ سوچ اور سوال ہی احمقانہ ہے کہ برائی اور نقصان والی چیزیں پیدا کیوں کی گئیں۔صرف بد عقل اور ناسمجھ لوگ اس سوال میں الجھتے ہیں اور زندگی بھراس کا جواب نہ پاکر گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
(۴) انسان وہ مخلوق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نیک اور برا بننے کی دونوں طرح کی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان چاہے تو پھول اور خوشبو بھی بن سکتا ہے اور چاہے تو سانپ اور بچھو بھی بن سکتا ہے۔انسانی فطرت یہ چاہتی ہے کہ ہر انسان اچھا بنے برا نہ بنے۔لیکن اچھے انسان بہت کم بن پاتے ہیں اور برے انسان بہت زیادہ بن جاتے ہیں۔اس پر کبھی غور نہیں کیا گیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
(۵) ہر علم اور سمجھ والا آدمی جانتا ہے کہ ہر بچہ پیدائشی طور پر برا نہیں ہوتا ہے اچھا اور نیک ہوتا ہے۔فرمان رسولﷺ ہے کہ’’ ہر چیز اپنی فطرت پر پیدا کی گئی ہے۔‘‘لیکن وہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے وہ اُس بچے کواچھا یا برا بنا دیتاہے۔انسانی سماج اچھا، فائدہ مند، ہمدرد،خیر خواہ، خدمت کا جذبہ رکھنے والا بنے تاکہ اُس کے اندر ہر پیدا ہونے والا بچہ نیک اور اچھا انسان بنے ایسا کرنا کس کی ذمہ دار ہے ؟
(۶) یہ ذمہ داری سماج میں رہنے والے ہر اُس انسان کی ہے جس کو کہیں نہ کہیں کوئی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری یا عہدہ دیا گیا ہے۔سب سے پہلے حکومت کا یہ فرض ہے۔ پھر حکومت چلانے والی جو انتظامیہ ہوتی ہے اُس کا یہ فرض ہے۔برائی کی روک تھام کرنے کے لئے جو پولس فورس بنائی جاتی ہے اُس کا یہ فرض ہے۔علم اور تعلیم کے ذریعہ جن لوگوں کو شریک، مہذب،سلیقہ مند، سمجھ دار اوربگاڑ کی جگہ بناؤ کا ماحول پیدا کرنے والا بنایا جاتا ہے اُن سبھوں کی یہ ذمہ داری ہے۔ہر خاندان کے بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے خاندان میں برائی پیدا ہونے اور اُس کو تباہ و برباد ہونے سے بچائیں۔لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل یہ سارے ادارے اور اس کا ہر فرد اپنا فرض اور ذمہ داری ٹھیک سے ادا نہیں کر رہا ہے بلکہ غیر ذمہ داری اور بے ایمانی کی چال چل رہا ہے، تو بتائیے کہ انسانی سماج ٹھیک کیسے رہے گا ؟ اور اُس میں بگاڑ پیدا کیسے نہیں ہوگا ؟
(۷) جو لوگ خود غرض، لالچی،مطلبی، نکمے، ناکارے اورمفاد پرست بن گئے اُنہوں نے جان لیا کہ نیکی اور اچھائی کے سماج میں اُن کا جینا تو دور سانس لینا مشکل ہے۔اس لئے اُنہوں نے اپنی غرض کے لئے جان بوجھ کر سماج میں بگاڑ پیدا کرنا شروع کر دیا۔اور پھر وہ اتنے طاقت ور ہو گئے کہ نیکی اور اچھائی کا ساتھ دینے والے اُن کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہوتے مردہ کی مانند ہو گئے۔
(۸) ان خراب لوگوں نے نیک اور اچھے لوگوں کو کمزور بنانے کے لئے ایک گہری سازش یہ کی کہ بے علم اور ناواقف عوام کو سمجھایا کہ پاپ اگر بڑھ رہا ہے تو تم کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاپ جب حد سے زیادہ بڑھ جائے گا تو بھگوان اوتار لے گا ،یعنی انسان کی شکل میں دنیامیں آئے گا اور پاپ کا سروناش(خاتمہ) کر دے گا۔
(۹) یہ کلمہ اتنی شدت سے پڑھوایا گیا کہ دنیا کی ساری قومیں اجتماعی طور پر سماج میں ہر طرح کی برائی اور بگاڑ کی مخالفت اور ان کے خاتمے سے غافل اور لاپروا ہو گئیں۔ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ایسا کرنا اُن کی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔ جب لوگ مصیبت اور رنج و غم سے چیخ پکار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انتظار کرو، یہاں تک کہ جب پاپ کا گھڑا بھر جائے گا تو خود بخود سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ تم کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(۱۰) دنیا میں مذہب کی ایجاد انسانوں کو نیک اور اچھا بنانے کے لئے ہوئی تھی۔لیکن جب برے لوگوں کی تعداد اور اُن کا اثر حد سے زیادہ بڑھ گیا اور مذہب کے دائرے میں کام کرنے والے لوگ بھی دنیا کے طلب گار اورپرستار بن گئے تو اُنہوں نے بھی نیک اور اچھا بنانے کے کام کو چھوڑ دیا اور شیطانی چالوں کا شکار ہو گئے۔
(۱۱) مذہبی لوگوں نے سمجھ لیا کہ اصل کام انسانوں کو اپنا غلام بنانا ہے،پھر اُن کو جس طرح چاہئے گمراہ کر کے اپنا الو سیدھا کر لیجئے۔چنانچہ مذہب جو شیطانی طاقتوں سے لڑنے اور اُن کو مٹانے کے لئے بنا تھا اس دائرے میں بھی شیطان کے فوجی پیدا ہو گئے اور پھر عقل مند اور سوچ سمجھ رکھنے والوں کے نزدیک مذہب بھی ایک ناپسندیدہ چیز بن گیا۔ اُنہوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مذہب بھی انسانوں کے استحصال (Exploitation)کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے۔پھر انسانی سماج میں مذہب بیزاری کی لہر چلنے لگی۔
(۱۲) دنیا کے تمام مذہبوں کے مقابلے میںاسلام جوایک سچا اور سیدھی راہ دکھانے والا اللہ کا بھیجا ہوا دین ہے ، جب اُس کا فروغ ہوا تودنیا نے پہلی بارانسانوں کی آزادی،اصلی مساوات،سچے عدل و انصاف اور خیر خواہی اور ہمدردی کا لطف اٹھایا۔مگر یہ مبارک دور صرف تیس سال ہی قائم رہا۔پھر خلافت کے خاتمے اور بادشاہت کی شروعات کے بعد اسلام میںبھی دنیا کے نقلی مذہبوں کی طرح برائیاں پروان چڑھنے لگیں۔اور دین پسند، دنیا بیزار، دنیا کے مقابلے میں آخرت کے طلب گار متقی پرہیزگار انسانوں کی جگہ مسلم سماج میں بے دین، دنیا پرست،آخرت بیزار اور عیار و مکار لوگوں کا غلبہ ہو گیا تو اسلام کے ماننے والے بھی اُن تمام برائیوں کے پیکر بن گئے جن سے انسانیت اور شرافت نفرت کرتی ہے۔
(۱۳) اسلام تو جیسا تھا اپنی جگہ پر ویسا ہی رہا۔ اُس میں بدلاؤ اس لئے نہیں آ سکتا تھا کہ اسلام کی بنیاد قرآن ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے قیامت تک قرآن کی حفاظت کرنے کا ذمہ خود لیا ہے۔لیکن دین بیزار اوردنیا پرست مذہبی لوگوں نے عوام کا رشتہ قرآن سے کاٹ دیا اور قرآن کی جگہ اسلام کے نام پر اپنی باتیں منونے لگے۔ اس طرح اُن کو سیدھی راہ دکھانے کی جگہ گمراہی کے راستے پر چلانے لگے اور اپنا الو سیدھا کرنے لگے۔
(۱۴) دنیا دار لوگ چونکہ مطلبی اور خود غرض ہوتے ہیں ا س لئے اُن میں کہیں اور کبھی اتفاق و اتحاد نہیں پایا جاتا ہے۔اتحاد و اتفاق پیدا کرنا صرف اصلی خالص اسلام کی صفت ہے۔اس لئے اسلام کے ان نقلی ٹھیکے داروں میں بھی تفرقہ اور پھوٹ کی انتہا ہو گئی۔اعلیٰ درجہ کے دین پسند لوگوں نے امت کی اصلاح اور فلاح کے لئے جو دینی ادارے بنائے تھے اور جو دینی درس گاہیں کھولی تھیں،وہ سب ذہین اور تیز طراردنیا پرست مذہبی عالموں کے ہاتھ لگ گئیں اور پھر وہاں بادشاہی نظام قائم ہو گیا کہ باپ کے بعد بیٹا جانشیں بنے گا چاہے وہ کتنا ہی نالائق کیوں نہ ہو۔
(۱۵) اور اب یہ مذہبی ٹھیکے دار بھی زمین دار اور جاگیر دار بن گئے۔ہر امیر، پیر، مرشد، سجادہ نشیں اور شیخ کو اپنی زمینداری اور جاگیرداری کو بچانے کی فکر اور اپنا اثر بڑھانے کی چنتا رہنے لگی۔اس کے لئے ضروری تھا کہ عوام کو گروہوں اور فرقوں میں بانٹا جائے تاکہ اپنی جاگیر خطرے میں نہ پڑے۔اوردوسرے زمیندار اور جاگیر دار اور اُس کے پیچھے چلنے والوںکے خلاف نفرت پھیلاکر اپنے لوگوں کواُن کے ساتھ جانے سے روکا جائے۔
(۱۶) اصلی اور سچے دین کی شکل و صورت بگاڑ کر نقلی مذہبوں جیسا بنا کرمسلمانوں کو جس طرح سے اسلام سے دور کیاگیا ہے وہ اتنا گھناؤنا اور سنگین گناہ ہے جو کسی قیمت پر معاف نہیں ہوگا۔اس کی سزا آخرت میں تو ملے گی ہی، دنیا میںبھی اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔پوری دنیا کے مسلمان اپنے اس گناہ کی سزا جھیل رہے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔زندگی کی سچائی کو جانئے،دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی فکر کیجئے۔

 

Related Articles