کووڈ 19: دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ یورپ اور امریکہ میں متوقع عمروں میں کمی
لندن/نیویارک،ستمبر۔برطانیہ میں قومی اعداد و شمار کے دفتر (او این ایس) کے تخمینے کے مطابق ملک میں مردوں کی عمروں میں 40 سال میں پہلی بار کمی واقع ہوئی ہے۔گذشتہ تین سال کے دوران سنہ 2020 تک پیدائش کے وقت مردوں کے لیے متوقع عمر 79 سال تھی جو کہ 2012-14 میں آخری مرتبہ دیکھی گئی تھی جبکہ خواتین کی متوقع عمر تقریباً جوں کی توں یعنی 83 سال سے کم رہی۔عام طور پر گذشتہ دہائیوں میں برطانیہ اور دنیا بھر میں لوگوں کی عمروں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور ان میں کمی شاذ و نادر ہی نظر آئی ہے۔آکسفرڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے سنہ 2020 میں یورپ اور امریکہ کے بیشتر حصوں میں متوقع عمروں میں کمی دیکھی جا رہی ہے جو کہ اس سے قبل صرف دوسری عالمی جنگ کے وقت دیکھی گئی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے سال یا اس کے بعد اس میں مزید کمی دیکھی جا سکتی ہے اور پھر اس کے بعد پھر سے عمروں میں اضافے کے آثار نظر آنا شروع ہو سکتے ہیں۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ طویل مدت میں کیا ہو گا کیونکہ صحت کی دیکھ بھال میں رکاوٹ کے اثرات واضح ہوئے ہیں۔کووڈ کی وبا کے پھیلنے سے پہلے برطانیہ میں پیدائش کے وقت متوقع عمروں میں اضافہ ہو رہا تھا اگرچہ یہ پچھلی دہائیوں کے مقابلے میں سنہ 2011 کے بعد بہت سست شرح سے ہونے والا اضافہ تھا۔لیکن نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2015-17 اور سنہ 2018-20 کے درمیان مردوں کی متوقع عمر میں سات ہفتوں تک کی کمی آئی اور سنہ 1980 کے بعد سے یہ اس طرح کی پہلی گراوٹ ہے۔ان سب کے باوجود یہ محض متوقع عمر کے اعداد و شمار ہیں جنھیں ’پیریڈ لائف ایکسپیکٹینسی‘ کہا جاتا ہے اور یہ اصل عمر کی پیشگوئی نہیں کرتے۔اس کے بجائے اس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایک نوزائیدہ بچے کی اوسط عمر کیا ہو گی اور اس کی بنیاد موجودہ موت کی شرح پر کی جاتی ہے۔اور چونکہ کووڈ سے ہونے والی اموات کی شرح طویل مدت تک جاری رہنے کا امکان نہیں تو اس لیے ان نئے تخمینوں کا مطلب یہ نہیں کہ سنہ 2020 میں پیدا ہونے والے بچے کی زندگی سنہ 2019 میں پیدا ہونے والے بچے سے کم ہو گی۔لیکن یہ وبائی امراض کے اثرات کی ایک جھلک ضرور فراہم کرتے ہیں جس کا موازنہ وقت کے ساتھ مختلف ممالک اور مختلف آبادیوں کے مابین کیا جا سکتا ہے۔تین سال کی اوسط عمر کے بجائے خود 2020 کو دیکھتے ہوئے او این ایس نے پایا کہ مردوں کی متوقع عمروں میں 1.2 سال اور خواتین کی عمروں میں 0.9 تک کمی واقع ہوئی ہے جو کہ مردوں میں کووڈ 19 سے ہونے والی زیادہ اموات کی عکاسی کرتا ہے۔سنہ 2020 کے لیے متوقع عمر میں اس بڑی کمی کے معاملے میں برطانیہ تنہا نہیں۔پورے یورپ، امریکہ اور چلی جیسے 29 ممالک کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سے تقریباً تمام ممالک کی اوسط عمروں میں کمی آئی ہے جس نے برسوں کے اندر آنے والی بہتری کو الٹ کر رکھ دیا۔اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے لیور ہلم سینٹر فار ڈیموگرافک سائنس کے محققین کے مطابق امریکہ میں سب سے زیادہ اثرات نظر آئے ہیں جہاں مردوں کی عمروں میں دو سال سے زیادہ کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔سوشل ڈیموگرافی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس مطالعے کے مرکزی مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر ریدھی کشیپ کا کہنا ہے کہ وبائی امراض کی شرح اموات اور متوقع عمروں پر ’بہت بڑا اور بے مثال اثر‘ پڑا اور عمروں میں ایک سال سے زیادہ کی کمی خاص طور پر غیر معمولی ہے۔ڈاکٹر کشیپ کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ چیز ہے جو ہمارے یہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے زیادہ تر مغربی یورپ میں نہیں دیکھی گئی اور سنہ 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے مشرقی یورپ میں نہیں دیکھی گئی۔‘اور بہت سے ممالک میں تو متوقع عمر سنہ 2015 کے اعداد و شمار سے بھی نیچے آ گئی ہے جو کہ فلو کے شدید موسم کی وجہ سے پہلے ہی خراب برس رہا۔مطالعے کے شریک سربراہ مصنف ڈاکٹر ہوزے مینوئل ابورتو کہتے ہیں کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کی شدت کو دیکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر عمروں میں کمی بہت حیران کن نہیں۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ’جو چیز زیادہ حیران کن ہے وہ ہے (عمروں میں) کمی کی زیادتی۔‘ڈاکٹر ابورتو کا کہنا ہے کہ امریکہ خاص طور پر اس سے سخت متاثر ہوا کیونکہ وہاں عمر رسیدہ آبادی تک اموات کے محدود رہنے کے بجائے کام کرنے والی عمر کی آبادی میں کووڈ اموات کی شرح بڑھی ہے اور یہی حال کچھ مشرقی یورپی ممالک اور کچھ حد تک سکاٹ لینڈ میں دیکھی گئی۔لیکن فن لینڈ میں خواتین اور ڈنمارک اور ناروے میں دونوں صنفوں نے معمولی بہتری دکھائی جبکہ ایسٹونیا اور آئس لینڈ جیسے ممالک میں نقصانات کم نظر آئے ہیں۔او این ایس کی ماہر اعداد و شماریات پامیلا کوب کا کہنا ہے کہ ایک بار جب وبائی مرض ختم ہو جاتا ہے اور ’مستقبل میں اموات پر اس کے نتائج معلوم ہو جاتے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں متوقع عمر بہتر ہونے والے رجحان کی طرف لوٹ آئے۔‘اور یہاں تک کہ اس کے ختم ہونے کے بعد پہلے سال یا اس کے بعد باؤنس بیک بھی ہو سکتا ہے جسے ڈیموگرافر ’زندہ بچ جانے والا اثر‘ کہتے ہیں۔کووڈ 19 ایکچوریز رسپانس گروپ کے شریک بانی سٹوارٹ مکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی زیادہ کمزور آبادی کا ایک بڑا حصہ کھو دیا اور اب آپ کی صحت مند زندہ آبادی ہے اور آپ توقع کریں گے کہ اس مدت میں ریاضی کے لحاظ سے کم اموات ہوں گی۔‘لیکن طویل مدتی تصویر پر غور کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’ہم بہت سے عوامل کی ایک پوری رینج کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘وائرس کی مستقبل کی لہریں، طویل مدت تک کووڈ کی موجودگی، معاشی رکاوٹیں، کینسر اور دیگر سنگین بیماریوں کے علاج میں تاخیر سبھی برطانیہ کی متوقع عمر کو کم رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔دوسری طرف ویکسینیشن سے بڑے پیمانے پر انفیکشن کو کنٹرول کا بہتر علم اور صحت کی دیکھ بھال پر بڑھتی ہوئی توجہ اس کی بحالی میں مدد کر سکتی ہے۔مسٹر مکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ’کیا متوقع عمریں اپنے اصل راستے پر واپس آئیں گی اور بڑھتی رہیں گی یا یہ مزید نیچے جا کر پھر بڑھنا شروع کرے گی؟ میرے خیال سے دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں۔‘’لیکن میرے خیال اور میرے پیشے میں ابھرتے ہوئے اتفاق رائے کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ طویل مدتی بنیاد پر بھی یہ خالص منفی ہے، جس کا مطلب کہ سست رفتار ترقی ہے۔‘