افغانستان کی صورتحال اور یورپ کا مخمصہ

تحریر:حافظ انیب راشد۔۔۔برسلز
افغانستان کے حوالے سے یورپین وزرائے خارجہ کی اور یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل اور نارتھ اٹلانٹک کونسل کے اجلاسوں کے بعد نیٹو سیکرٹری جنرل یین سٹولٹن برگ کی پریس کانفرنسز اس حیرت سے بھری ہوئی تھیں کہ طالبان کے ہاتھوں سقوط کابل کیسے ہوگیا۔ وہ فوج کہاں گئی جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے ، کابل حکومت کو تحفظ کیوں نہ مل سکا اور صدر اشرف غنی کیوں فرار ہوگئے،ان دونوں رہنماؤں کی باقی تمام گفتگو اس تنقید کا جواب تھی جو عموما اس انخلاء سے جڑے کرداروں پر ہو رہی ہے۔ یورپ کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہ جنگ اس کی کبھی تھی ہی نہیں۔ یہ مکمل طور پر امریکہ کی جنگ تھی جو اس نے اپنے نئے ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کو یک قطبی بنانے کیلئے شروع کی تھی۔ لاتعداد یورپین دانشور آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس بات کا اظہار کر چکے کہ ہم افغانستان نہیں جانا چاہتے تھے۔ پیچھے رہ جانے کا خوف اور نیٹو کا کمبل انہیں باندھ کر لے گیا۔ اب بھی یہی ہوا کہ امریکہ نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے بس یورپ کو آگاہ کیا اور چلتا بنا۔ یہ سوالات اور یہ تنقید جو اب ہو رہی ہے، یہ تمام سوالات نیٹو اور سے جڑے یورپ کے ہر تھنک ٹینک میں امریکہ کے سامنے رکھے گئے تھے لیکن اس نے کسی کی نہیں سنی ،ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر موجودہ صدر جو بائیڈن تک کو غور سے سنیں اور ان کی باڈی لینگویج کو دیکھیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے کمبل کو لات ماری ہے۔ اس نے افغان قیادت سمیت ساری دنیا کو کہا ، ’’تم بھاڑ میں جائو‘‘۔ اس ساری صورتحال میں اس کے یورپین اتحادیوں کے پاس اب صرف طعنے بچے ہیں یا وضاحتیں۔ دراصل میں جب یورپ کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے اس دنیا کا معصوم بچہ لگتا ہے۔ ایک ایسا اچھا شخص جو آج کے مادی دور میں بھی انسانی حقوق، جمہوریت ،حرف کی حرمت، حق آزادی رائے اور دنیا میں سب کیلئے انصاف اور رول آف لاء کی بات کرتا ہے، انہی اصولوں کی پاسداری میں دنیا بھر سے اپنی سرزمین پر ’’یلغار‘‘ کرنے والے مہاجرین کو ایڈجسٹ کرتا پھرتا ہے۔ یہی وہ واحد سرزمین ہے جو اپنے گھر میں چوری چھپے داخل ہونے والوں (مہاجرین) کی موت پر افسردہ بھی ہوتی ہے اور ان ہی سے انسانی حقوق کا طعنہ بھی سنتی ہے جو اپنے لوگوں کو یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے اور جن کے خوف سے لوگ فرار ہوتے ہیں ،یہی وہ ملک ہیں جو اپنے بیماروں اور معاشی طور پر کمزور لوگوں کا خیال کرتے ہوئے موت تک ان کا ہاتھ پکڑے رکھتے ہیں،اپنے لوگوں کو غریب ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتے اور اس کیلئے کسی اور سے پیسے بھی نہیں مانگتے ہیں، افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا حاصل یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل کا اپنی پریس کانفرنس میں یہ تجزیہ ہے کہ’’ باہر سے جا کر بے شمار وسائل کے ساتھ کسی بھی قوم کی تعمیر اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ قوم کی تعمیر کا عمل گھر میں پیدا ہونے والی چیز کے طور پر ظاہر نہ ہو ، جہاں لوگ خود سے حصہ لیں اور با اختیار ہوں‘۔ یہ تجزیہ اپنی جگہ درست ہے۔ لیکن طاقت کا مسئلہ یہی رہا ہے کہ اسے مشورے پسند نہیں ہوتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ جیسی طاقت کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ’’ بے عزتی‘‘ نہیں ہوتی۔ اس کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ ایک کے بعد دوسرا پنگا لے سکے، وہ 20 سال کے بعد بھی یہ کہنے کے قابل رہتا ہے کہ ہم ملک بنانے تھوڑا نکلے تھے، وہ اپنی رقم اپنے اوپر خرچ کرنے کے بعد بھی دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ آپ کیلئے کیا لیکن قدرت نے یورپ کو افغانستان میں اپنی غلطیوں کی اصلاح اور اپنی شناخت پیدا کرنے کا ایک اہم موقع پھر سے دیا ہے، اگر آپ اپنے افغانستان میں گزرے20 سال کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ’’قومی تعمیر‘‘ کیلئے تھے تو پھر افغان عوام کو آج حقیقی طور پر مدد کی ضرورت ہے، اس لمحے ان کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھائیے ، چاہے دوسری طرف لینے والا ہاتھ سوٹ بوٹ کی بجائے پگڑی داڑھی میں ملبوس کیوں نہ ہو، مجھے امید ہے کہ آج اگر وہاں عوام کیلئے رقم بھیجی جائے گی تو دل میں یہ خیال کم آئے گا کہ یہ رقم کرپشن میں نہ چلی جائے،افغانستان میں تاریخ کا وہ لمحہ آ پہنچا ہے جب اس ملک کے عوام کو جنگ اور خانہ جنگی دونوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے، یورپ نے اب تک افغانستان میں 4 ارب یورو سے زیادہ رقم خرچ کی ہے، اس نے صحت اور تعلیم کے میدان میں عوام کیلئے سہولیات پیدا کرنے کے علاوہ ملک میں وزارت داخلہ کے 124000 افراد کا بوجھ اٹھا رکھا تھا، افغانستان کی اندرونی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے اداروں کی تشکیل نو میں مدد دی ہے، اس کے لاکھوں شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، یاد رہے کہ یورپین سرزمین پر پناہ لینے والے مہاجرین میں افغانستان کا دوسرا نمبر ہے، اس کے علاوہ ہمسایہ ممالک میں رہنے والے افغان مہاجرین کی مدد میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے، ایسے میں ضرورت ہے کہ افغانوں کو صرف افغان سمجھ کر ہی ان کی مدد کی جائے۔ انہیں سوٹ، پگڑی، حجاب اور برقعے میں نہ بانٹا جائے بلکہ انسان سمجھتے ہوئے ان پر امن کے در وا ہونے دئیے جائیں۔ افغانستان کی دوعشروں کی جنگ نے دکھا دیا کہ طاقت کے ذریعے شاید حکومت قائم کی جا سکتی ہے لیکن امن نہیں اور اس سلسلے میں رکی ہوئی امداد کی فراہمی کے ذریعے یورپ لیڈ لے سکتا ہے۔

Related Articles