وزیر اعظم نے دہلی کے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں آدی مہوتسو کا افتتاح کیا
نئی دہلی، فروری۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج دہلی کے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں عظیم الشان قبائلی میلے آدی مہوتسو کا افتتاح کیا۔ آدی مہوتسو قومی اسٹیج پر قبائلی ثقافت کو ظاہر کرنے کی ایک کوشش ہے اور یہ قبائلی ثقافت، دستکاری، کھانوں، تجارت اور روایتی فن کی روح اور اس کی اہمیت پیش کرتی ہے۔ یہ قبائلی امور کی وزارت کے تحت قبائلی کوآپریٹو مارکیٹنگ ڈیولپمنٹ فیڈریشن لمیٹڈ(ٹرائیفیڈ) کا سالانہ اقدام ہے۔ مقام تقریب میں پہنچنے پر، وزیر اعظم نے بھگوان برسا منڈا کو پھول چڑھائے اور نمائش میں لگے اسٹالوں کا نزدیک جا کر جائزہ لیا۔اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آدی مہوتسو آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران ہندوستان کے قبائلی ورثے کی ایک شاندار تصویر پیش کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کے قبائلی معاشروں کے باوقار ٹیبلو پر روشنی ڈالی اور مختلف ذائقوں، رنگوں، آرائشوں، روایات، فن اور فن کی شکلوں، پکوانوں اور موسیقی کو دیکھنے کا موقع ملنے پر مسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آدی مہوتسو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہندوستان کے تنوع اور شان کی تصویر پیش کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے تبصرہ کیا ‘‘ مہوتسو ایک لامحدود آسمان کی طرح ہے جہاں ہندوستان کے تنوع کو قوس قزح کے رنگوں کی طرح پیش کیا جاتا ہے’’۔ قوس قزح کے رنگوں کو ایک ساتھ آنے سے تشبیہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قوم کی شان اس وقت سامنے آتی ہے جب اس کے لامحدود تنوع کو ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کی ڈور میں باندھ دیا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہے جب ہندوستان تمام دنیا کے لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ آدی مہوتسو ہندوستان کے کثرت میں وحدت کو تقویت دے رہا ہے اور وراثت کے ساتھ ترقی کے خیال کو تحریک دے رہا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ 21ویں صدی کا ہندوستان ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جسے دور افتادہ اور الگ تھلگ سمجھا جاتا تھا، اب ، حکومت خود وہاں جا رہی ہے اور دور افتادہ اور نظر انداز لوگوں کو قومی دھارے میں لا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آدی مہوتسو جیسے پروگرام ملک میں ایک تحریک بن چکے ہیں اور وہ خود بھی ان میں سے کئی میں حصہ لیتے ہیں۔ ‘‘قبائلی معاشرے کی فلاح و بہبود میرے لیے ذاتی تعلقات اور جذبات کا بھی معاملہ ہے’’، وزیر اعظم نے ایک سماجی کارکن کے طور پر اپنے گزشتہ دنوں کے دوران قبائلی برادریوں کے ساتھ اپنی قریبی وابستگی کو یاد کرتے ہوئے کہا۔‘‘میں نے آپ کی روایات کو قریب سے دیکھا ہے، انہیں جیا ہے اور ان سے سیکھا ہے’’، وزیر اعظم نے عمرگام سے امباجی کی قبائلی پٹی میں اپنی زندگی کے اہم سال گزارنے کو یاد کرتے ہوئے مزید کہا۔‘‘ قبائلی زندگی نے مجھے ملک اور اس کی روایات کے بارے میں بہت کچھ سکھایا ہے’’۔وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ملک اپنی قبائلی شان کے حوالے سے بے مثال فخر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قبائلی مصنوعات غیر ملکی معززین کو تحائف کے طور پر پیش کرنا میرے لئے فخر کا مقام ہوتا ہے۔ قبائلی روایت کو ہندوستان نے عالمی پلیٹ فارمز پر ہندوستانی شان و شوکت اور ورثے کے اٹوٹ حصہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان قبائلی طرز زندگی میں گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کی قبائلی برادری کے پاس پائیدار ترقی کے سلسلے میں حوصلہ افزائی اور سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔وزیراعظم نے قبائلی مصنوعات کے فروغ میں حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قبائلی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ مارکیٹ تک پہنچنا چاہیے اور ان کی پہچان اور مانگ میں اضافہ ہونا چاہیے۔ بانس کی مثال دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پچھلی حکومت نے بانس کی کٹائی اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی لیکن یہ موجودہ حکومت تھی جس نے بانس کو گھاس کے زمرے میں شامل کیا اور پابندی ختم کی۔ ون دھن مشن کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ مختلف ریاستوں میں 3000 سے زیادہ ون دھن مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ تقریباً 90 معمولی جنگلاتی مصنوعات کو ایم ایس پی کے دائرے میں لایا گیا ہے، جو کہ 2014 کی تعداد سے 7 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح، ملک میں سیلف ہیلپ گروپس کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک سے قبائلی معاشرے کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ملک میں 80 لاکھ سے زیادہ سیلف ہیلپ گروپس میں 1.25 کروڑ قبائلی ارکان کام کر رہے ہیں۔وزیراعظم نے قبائلی نوجوانوں کے لیے قبائلی فنون اور ہنر کی ترقی کے لیے حکومت کی کوششوں پر زور دیا۔ اس سال کے بجٹ پر غور کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بتایا کہ پی ایم وشوکرما یوجنا روایتی کاریگروں کے لیے متعارف کرایا گیا ہے جہاں ان کی مصنوعات کی مارکیٹنگ میں مہارت کی ترقی اور مدد کے علاوہ اقتصادی مدد فراہم کی جائے گی۔وزیراعظم نے کہا‘‘قبائلی بچے خواہ وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں، ان کی تعلیم اور ان کا مستقبل میری ترجیح ہے’’۔ انہوں نے بتایا کہ ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کی تعداد 2004-2014 کے درمیان 80 اسکولوں سے 5 گنا بڑھ کر 2014 سے 2022 تک 500 اسکولوں تک پہنچ گئی ہے۔ 400 سے زیادہ اسکول پہلے ہی کام کرنا شروع کر چکے ہیں، جن میں تقریباً 1 لاکھ بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں ان اسکولوں کے لیے 38 ہزار اساتذہ اور عملے کا اعلان کیا گیا ہے۔ قبائلی طلباء کے وظائف کو دوگنا کر دیا گیا ہے۔زبان کے حوالے سے پیش آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے قبائلی نوجوانوں کو درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے نئی تعلیمی پالیسی پر روشنی ڈالی جہاں نوجوان اپنی مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘ہمارے قبائلی بچوں اور نوجوانوں کا اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا اور ترقی کرنا اب ایک حقیقت بن چکا ہے’’۔وزیراعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے کیونکہ حکومت محروموں کی ترقی کو ترجیح دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کی راہیں اس وقت خود بخود کھل جاتی ہیں جب ملک آخری سریپر موجود شخص کو ترجیح دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے خواہش مند اضلاع اور بلاکس اسکیم کا حوالہ دے کر اس کی وضاحت کی جہاں زیادہ تر ہدف بند علاقوں میں قبائلی اکثریت ہے۔ ‘‘اس سال کے بجٹ میں درج فہرست قبائل کے لیے دیے گئے بجٹ میں بھی 2014 کے مقابلے میں 5 گنا اضافہ کیا گیا ہے’’، وزیر اعظم نے آگاہ کیا اور مزید کہا کہ ‘‘جو نوجوان تنہائی اور نظر انداز ہونے کی وجہ سے علیحدگی پسندی کے جال میں پھنس جاتے تھے، اب انٹرنیٹ اور انفرا کے ذریعے مرکزی دھارے سے جڑ رہے ہیں۔ یہ ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس’ کا سلسلہ ہے جو ملک کے دور دراز علاقوں کے ہر شہری تک پہنچ رہا ہے۔ یہ آدی اور آدھونیکت (جدیدیت) کے سنگم کی آواز ہے، جس پر نئے ہندوستان کی بلند ہوتی عمارت کھڑی ہوگی۔وزیر اعظم نے گزشتہ 8-9 سالوں میں قبائلی معاشرے کے سفر پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ اس تبدیلی کا گواہ ہے جہاں ملک مساوات اور ہم آہنگی کو ترجیح دے رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہندوستان کی آزادی کے 75 سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی قیادت ایک قبائلی خاتون کے ہاتھ میں ہے جو صدر کی شکل میں اعلیٰ ترین عہدہ پر آکر ہندوستان کا سر فخر سے بلند کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی تاریخ کو پہلی بار ملک میں بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں قبائلی سماج کے تعاون کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے تاریخ کے صفحات میں قربانیوں اور بہادری کے شاندار ابواب کو چھپانے کی دہائیوں سے درپردہ کوششوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ قوم نے آخر کار امرت مہوتسو میں قدم اٹھایا ہے تاکہ ماضی کے ان بھولے ہوئے ابواب کو منظر عام پر لایا جا سکے اور کہا کہ ‘‘پہلی بار ملک نے بھگوان برسا منڈاکی یوم پیدائش پر جنجاتیہ گورو دیوس منانا شروع کیا ہے’’۔ جھارکھنڈ کے رانچی میں بھگوان برسا منڈا کے لیے وقف میوزیم کے افتتاح کے موقع کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مختلف ریاستوں میں قبائلی آزادی پسندوں سے متعلق عجائب گھر بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگرچہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے، اس کے تاثرات آنے والی کئی نسلوں تک نظر آئیں گے اور کئی صدیوں تک ملک کو تحریک اور رہنمائی فراہم کریں گے۔’’ہمیں اپنے ماضی کی حفاظت کرنی ہے، اپنے فرض کے احساس کو حال میں عروج پر لے جانا ہے، اور مستقبل کے لیے اپنے خوابوں کو حقیقت بنانا ہے’’، وزیر اعظم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آدی مہوتسو جیسے واقعات اس کو آگے لے جانے کا ایک مضبوط ذریعہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس مہم کو ایک عوامی تحریک بننا چاہئے اوراس کے ساتھ ہی انہوں نے مختلف ریاستوں میں اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے پر زور دیا۔