شاہ رخ خان: حساس عاشق اور دل کھول کر رونے والے ’کنگ خان‘ کا سحر دہائیوں بعد آج بھی کیوں قائم ہے؟
ممبئی،جولائی۔شتہ ماہ انڈین فلم انڈسٹری کے سپر سٹار شاہ رخ خان نے انڈین سنیما میں اپنے 30 سال مکمل کیے ہیں۔ شریانا بھٹاچاریہ، جنھوں نے بالی ووڈ اداکار کی لازوال مقبولیت پر ایک کتاب لکھی ہے، بتاتی ہیں کہ شاہ رخ اب بھی دنیا کے سب سے بڑے فلمی ستاروں میں کیوں شامل ہیں۔انڈین فلم انڈسٹری میں شاہ رخ خان کی تین دہائیوں تک حکمرانی کی وجوہات پیش کرنا شاید آسان ہے۔ لاکھوں لوگ واضح طور پر اداکار سے اس حد تک پیار کرتے ہیں کہ عوامی سطح پر شاہ رخ خان کی عزت و تکریم میں انھیں پوجا جاتا ہے۔مگر شاہ رخ خان کو اتنا چاہا اور پوجا کیوں جاتا ہے؟ان کی فلموں کی طرح اس سوال کا جواب بھی جذباتی اور رومانوی ہے۔شاہ رخ خان نے ہمیشہ انڈیا اور جنوبی برصغیر کی بہترین نمائندگی کی ہے۔ انھوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے ایک ایسے خوشحال، مشترکہ اور انسانی خطے کی جھلک دکھائی جو غصے کے بغیر خود پر ہنس سکتا ہے۔لاکھوں انڈین شہریوں کے لیے وہ ملک کی معاشی ترقی کی کہانی کے پوسٹر بوائے بھی ہیں۔ خان نے ہماری سکرینوں پر اس وقت انٹری کی جب انڈیا عالمی معیشت کے منظر نامے پر ابھرا تھا اور ان کا رتبہ بھی انڈیا کی ترقی کرتی معیشت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔انڈیا نے اپنی معاشی اصلاحات کے سلسلے میں ٹیلی کام سیکٹر کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا جس نے انڈیا میں میڈیا کے نئے نیٹ ورکس کو ملک میں نشریات شروع کرنے کی اجازت دی۔ ان چینلز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شاہ رخ کی فلمیں، گانے اور انٹرویوز کسی بھی دوسری فلمی شخصیت کے مقابلے زیادہ گھروں تک پہنچیں۔جیسے جیسے انڈیا نے اپنی معیشت کو مزید وسعت دی، ملک میں سوڈا بنانے والی اور کاریں بنانے والی نئی کمپنیاں داخل ہوئیں اور انھوں نے شاہ رخ خان کو اپنا برانڈ ایمبیسڈر بنایا۔اس طرح شاہ رخ خان کا دلی کے ایک متوسط گھرانے سے عالمی سطح پر ڈرامائی انداز میں مشہور شخصیت بننا انڈیا کی کسی جادوئی پری کہانی کی طرح تھا۔ ایک ایسی مثال جس میں کوئی نیا اداکار ترقی کی منزل کسی فلمی خاندان سے تعلق اور فلمی دنیا میں کوئی تعلقات کے بغیر طے کرتا گیا۔ شاہ رخ خان کا قد کاٹھ بھی انڈیا کی ترقی کرتی معیشت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ملک میں دائیں بازو کے عروج کے ساتھ شاہ رخ بھی ملک کے ایک ایسے ترقی پسند سیکولر ماضی کا چہرہ بن کر ابھرے جس کے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش بہت سے انڈین شہری اب بھی کر رہے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہندو قوم پرست دور حکومت میں ملک میں عدم برداشت میں اضافہ ہوا اور اس پر انڈیا کے مسلمانوں پر مظالم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔شاہ رخ خان کے بیٹے، آریان خان کو گذشتہ سال منشیات کے ایک کیس میں گرفتار کیا گیا اور بالآخر بری کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کیس کا مقصد انڈیا کے سب سے کامیاب مسلمان شخص کو نشانہ بنانا تھا۔انھوں نے ہمیشہ انڈین معاشرے میں تمام مذاہب اور طبقات میں اچھے تعلقات پر فکر انگیز تبصرے کیے ہیں اور اپنے ہم عصر اداکاروں سے زیادہ مسلم کردار ادا کیے ہیں تاہم ان کے مداح انھیں کسی مذہبی شناخت تک محدود کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ انھیں عقلمند، اچھی حس مزاح والا، کامیاب اور جنسی لحاظ سے بہت زیادہ پرکشش سمجھتے ہیں۔ان کے ایک مداح جن سے، میں نے انٹرویو کیا، وہ شاہ رخ کے مخلوط مذہب والے خاندان کے خلاف دائیں بازو کے بدنیتی پر مبنی حملوں پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ سیکولر ہیں لیکن وہ بہت سیکسی بھی ہیں۔‘شاہ رخ خان کی بیوی ہندو ہیں جبکہ وہ اور ان کے بچے مسلمان ہیں۔سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے ہمیشہ اپنی فلموں اور کرداروں میں اس حساسیت کو دکھایا جو بطور انسان ہم محسوس کرتے ہیں۔ وہ عموماً حساس کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک حساس عاشق، ایک نازک ہیرو، ایک حساس شوہر، ایک حساس مسلمان حتیٰ کہ ایک حساس ولن۔ وہ جن مردوں کا کردار ادا کرتے ہیں وہ شاید ہی خود سے یا اپنے اردگرد افراد سے مطمئن ہوتا ہے۔ان کے فلمی کردار اکثر جذباتی طور پر اکیلے ہوتے ہیں، وہ پوری طرح چاہے جانے کو محسوس نہیں کر پاتے اور اپنی محبت کی تلاش کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔شاہ رخ خان جنوبی ایشیا کے رومانٹک سپر ہیرو بھی ہیں۔ ان کی فلمیں دیسی رومانس کا ایک معیار بن چکی ہیں۔ایک ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہیں کہ وہ اپنے کرداروں میں بالی وڈ کے دوسرے مرد سٹارز کے کرداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خواتین کے ساتھ رومانس کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن شاہ رخ خان کے کردار محبت کی تلاش کرتے ہیں وہ صرف ایک عورت کی روایتی محبت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس محبت میں شدت سے باپ، دوستوں اور اپنے ہم وطنوں کی رضامندی کی تلاش بھی کرتے ہیں۔وہ جن مردوں کا کردار ادا کرتے ہیں وہ دل سے درد کو محسوس کرتے ہیں اور کھل کر روتے ہیں۔ فلمیں لکھنے والے اکثر یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ شاہ رخ خان دنیا کے بہت سے دوسرے اداکاروں سے زیادہ اچھا کیسے رو سکتے ہیں۔ان آنسو بھری آنکھوں نے انھیں ان گنت مداح دیے ہیں۔ فلموں سے ہٹ کر ان کے ٹیلی ویڑن انٹرویوز اور عوامی خطابات نے ان کی حس مزاح اور عاجزی کو بڑھایا۔میں ایسے بہت سے اشرافیہ مداحوں کو جانتی ہوں جو خان کی فلموں سے زیادہ ان کے انٹرویوز کو پسند کرتے ہیں۔ میڈیا پر ان کے یہ انٹرویوز آج بھی ان کی اداکاری کی بہترین پرفارمنس کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ان کا ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے سپر سٹار کا چہرہ ہے۔انھوں نے عوامی سطح پر اپنی ایک ایسی شخصیت کو پیش کیا، جو اچھا لگنے کی حد تک مغرور ہے، ہمیشہ اپنے راز بتا کر ہمارا دل لبھاتا ہے اور اپنے شعور اور طنزیہ مزاح سے اپنا گرویدہ بناتا ہے۔بے انتہا سگریٹ نوشی کرنا، بولڈ، مزاحیہ اور خود کو جاننے والے شاہ رخ خان نے کبھی بھی ہمیں مایوس یا بور نہیں کیا۔ وہ ہمیں معاشی مشکلات سے نکلنے سے لے کر پیچیدہ تعلقات اور دوستیوں پر سنجیدہ مشورے دینے تک اور فلم انڈسٹری میں بوڑھے ہونے پر مزاحیہ لطیفے سنانے تک پر طرح سے ہمیں محظوظ کرتے ہیں۔ان کی تمام باتوں اور لطیفوں میں، وہ ہمیشہ ایک ایسے مرد کی طرف اشارہ دیتے ہیں جو محنت کرتا ہے، اپنے کام اور فن کا بہت خیال رکھتا ہے اور خود پر ہنسنے سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس بے یقینی اور تلخ حقیقت سے گھری دنیا میں شاہ رخ خان کے کردار ایک تفریح اور فرار کا ذریعہ ہیں۔کچھ وقفے کے بعد شاہ رخ خان کی اگلے برس تین فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں۔ ان کے مداح ابھی سے ان کے بارے میں پرجوش ہیں لیکن انھیں دائیں بازو کے سوشل میڈیا کی جانب سے ان کے خلاف ان مہمات پر بھی پریشانی ہے جو اس مسلمان مشہور شخصیت اور ان کی فلموں کے بائیکاٹ کی حمایت کرتے ہیں۔جیسے جیسے ہماری سیاست میں تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے، اداکار کی طاقت اس میں مضمر ہے کہ وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو مسکراہٹوں اور کہانیوں سے کیسے جوڑ سکتا ہے۔میں اس آئیکون کے اگلے 30 سال کا انتظار نہیں کر سکتی۔ ہماری ٹوٹی ہوئی ثقافت کو اس کے لطائف اور کھلے بازوؤں کی اشد ضرورت ہے۔