این سی سی، این ایس ایس اور ہوم گارڈ کوبھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم سے جوڑیں: شاہ

نئی دہلی، اپریل۔مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نیشنل کیڈٹ کور، نیشنل سروس اسکیم، ہوم گارڈ اور خواتین رضاکاروں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم سے جوڑنے کو کہا ہے تاکہ وقت پر رضاکاروں اور انسانی وسائل کی کوئی کمی نہ ہواور آفات کے متعلق الرٹ لوگ فوری طور پر پہنچائے جا سکیں۔جمعرات کو یہاں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کے زیر اہتمام صلاحیت سازی سے متعلق دو روزہ سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر شاہ نے کہا کہ ملک نے اب ٹیکنالوجی کی طاقت پر یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ زیادہ تر آفات کی پیشگی وارننگ اورالرٹ وقت رہتے متاثرہ علاقے کے ہر شخص تک پہنچے اور اسے فوری امداد ملے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس کے لیے نیشنل کیڈٹ کور، نیشنل سروس اسکیم، ہوم گارڈز اور خواتین رضاکاروں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم میں جوڑنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سب کو منظم طریقے سے تربیت دی جائے تاکہ آفات کے وقت تربیت یافتہ رضاکاروں اور عوامی وسائل کی کوئی کمی نہ ہو اور لوگوں کو فوری طور پر ڈیزاسٹر الرٹ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تربیت یافتہ نوجوان این ڈی آر ایف کی ٹیم کے پہنچنے سے پہلے ابتدائی طبی امداد کی سہولت فراہم کرنے کے طریقے سے کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کو گاؤں تک پہنچانے کے لیے ’آپدا مِتر یوجنا‘ (آفات دوست منصوبہ) شروع کی گئی ہے، جس میں ہر گاؤں میں تربیت یافتہ نوجوانوں کی ٹیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے ایپس بھی بنائے جا رہے ہیں۔ ان ایپس کو گراس روٹ لیول تک لے جانے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس پر دستیاب معلومات سے فائدہ اٹھا سکیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈیزاسٹر رسپانس کا کام صرف کاغذی تحقیق سے نہیں ہو سکتا، اس کے لیے بڑے پیمانے پر متعلقہ افراد کی صلاحیت سازی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کام میں بہت سی ایجنسیاں شامل ہیں اس لیے اچھے نتائج کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں بہتر کوآرڈینیشن اور ایک دوسرے کی تکملہ بنیں۔ یہ کوآرڈینیشن ریاستوں اور اضلاع اور گاؤں تک پھیلنا چاہیے۔این ڈی آر ایف کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت کم وقت میں اس تنظیم نے پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ تنظیم نے پڑوسی ممالک میں بھی انسانیت کے نقطہ نظر سے کام کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک نے بیس سال کے عرصے میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے میں ایک نیا سنگ میل عبور کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی سے پہلے آفات کی وجہ سے جان و مال کے نقصان کو ٹالا نہیں جا سکتا تھا اور توجہ صرف راحت پر مرکوز تھی لیکن این ڈی آر ایف نے بڑی کوششوں کے ساتھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں کامیابی کی نئی داستان لکھی ہے اور ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ آفات سے ہونے والی ہلاکتوں میں کافی کمی آئی ہے اور اب ہر قسم کی آفت کا کامیابی سے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔مسٹر شاہ نے کہا کہ اب تک 21 ہزار سے زیادہ ایس ڈی آر ایف اہلکاروں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ مختلف قسم کی آفات سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً ہدایات اور مشورے بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبھاش چندر بوس ایوارڈ بھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے شروع کیا گیا ہے۔کانفرنس میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے، مرکزی داخلہ سکریٹری، این ڈی آر ایف کے ڈائریکٹر جنرل اتل کروال اور کئی دیگر اعلیٰ افسران نے بھی شرکت کی۔

این سی سی، این ایس ایس اور ہوم گارڈ کوبھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم سے جوڑیں: شاہ
نئی دہلی، اپریل۔مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نیشنل کیڈٹ کور، نیشنل سروس اسکیم، ہوم گارڈ اور خواتین رضاکاروں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم سے جوڑنے کو کہا ہے تاکہ وقت پر رضاکاروں اور انسانی وسائل کی کوئی کمی نہ ہواور آفات کے متعلق الرٹ لوگ فوری طور پر پہنچائے جا سکیں۔جمعرات کو یہاں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کے زیر اہتمام صلاحیت سازی سے متعلق دو روزہ سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر شاہ نے کہا کہ ملک نے اب ٹیکنالوجی کی طاقت پر یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ زیادہ تر آفات کی پیشگی وارننگ اورالرٹ وقت رہتے متاثرہ علاقے کے ہر شخص تک پہنچے اور اسے فوری امداد ملے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس کے لیے نیشنل کیڈٹ کور، نیشنل سروس اسکیم، ہوم گارڈز اور خواتین رضاکاروں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم میں جوڑنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سب کو منظم طریقے سے تربیت دی جائے تاکہ آفات کے وقت تربیت یافتہ رضاکاروں اور عوامی وسائل کی کوئی کمی نہ ہو اور لوگوں کو فوری طور پر ڈیزاسٹر الرٹ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تربیت یافتہ نوجوان این ڈی آر ایف کی ٹیم کے پہنچنے سے پہلے ابتدائی طبی امداد کی سہولت فراہم کرنے کے طریقے سے کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کو گاؤں تک پہنچانے کے لیے ’آپدا مِتر یوجنا‘ (آفات دوست منصوبہ) شروع کی گئی ہے، جس میں ہر گاؤں میں تربیت یافتہ نوجوانوں کی ٹیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے ایپس بھی بنائے جا رہے ہیں۔ ان ایپس کو گراس روٹ لیول تک لے جانے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس پر دستیاب معلومات سے فائدہ اٹھا سکیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈیزاسٹر رسپانس کا کام صرف کاغذی تحقیق سے نہیں ہو سکتا، اس کے لیے بڑے پیمانے پر متعلقہ افراد کی صلاحیت سازی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کام میں بہت سی ایجنسیاں شامل ہیں اس لیے اچھے نتائج کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں بہتر کوآرڈینیشن اور ایک دوسرے کی تکملہ بنیں۔ یہ کوآرڈینیشن ریاستوں اور اضلاع اور گاؤں تک پھیلنا چاہیے۔این ڈی آر ایف کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت کم وقت میں اس تنظیم نے پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ تنظیم نے پڑوسی ممالک میں بھی انسانیت کے نقطہ نظر سے کام کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک نے بیس سال کے عرصے میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے میں ایک نیا سنگ میل عبور کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی سے پہلے آفات کی وجہ سے جان و مال کے نقصان کو ٹالا نہیں جا سکتا تھا اور توجہ صرف راحت پر مرکوز تھی لیکن این ڈی آر ایف نے بڑی کوششوں کے ساتھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں کامیابی کی نئی داستان لکھی ہے اور ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ آفات سے ہونے والی ہلاکتوں میں کافی کمی آئی ہے اور اب ہر قسم کی آفت کا کامیابی سے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔مسٹر شاہ نے کہا کہ اب تک 21 ہزار سے زیادہ ایس ڈی آر ایف اہلکاروں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ مختلف قسم کی آفات سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً ہدایات اور مشورے بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبھاش چندر بوس ایوارڈ بھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے شروع کیا گیا ہے۔کانفرنس میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے، مرکزی داخلہ سکریٹری، این ڈی آر ایف کے ڈائریکٹر جنرل اتل کروال اور کئی دیگر اعلیٰ افسران نے بھی شرکت کی۔

 

Related Articles