انصاری کی حق گوئی و بے باکی سے بی جے پی اور وی ایچ پی چراغ پا

نئی دہلی، جنوری ۔سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کےامریکہ میں ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کرنے اور ہندستان کے سیاسی ماحول پر تبصرے کرنے سے ملک کے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچ گئی ہے۔سابق صدر کی حق گوئی بے باکی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور وشو پریشد (وی ایچ پی)سے ہضم نہیں ہوپارہی ہے۔بی جے پی اور وی ایچ پی نے مسٹر انصاری کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص پر تنقید کرنے کا جنون اب ملک پر تنقید کرنے کی سازش میں بدل گیا ہے۔مسٹر انصاری یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکہ میں مقیم انڈین امریکن مسلم کونسل اور کچھ دیگر تنظیموں کے ذریعہ منعقدہ ایک ورچوئل پروگرام میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کے ساتھ اداکارہ سورا بھاسکر اور تین امریکی قانون ساز جم میک گورن، اینڈی لیون اور جیمی رسکن بھی تھے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر انصاری نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ہم نے ایسے رجحانات اور طرز عمل دیکھے ہیں جو پہلے سے قائم شہری قوم پرستی کے خلاف ہیں اور جو ثقافتی قوم پرستی کے خیالی نظام پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ماحول موجودہ انتخابی اکثریت کو مذہبی اکثریت کے طور پر پیش کرتا ہے اور سیاسی اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ شہریوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر الگ کیا جائے اور عدم تحفظ کو فروغ دیا جائے۔ ایسے خیالات کو سیاسی اور قانونی طور پر چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر انصاری کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کا جنون اب ہندوستان پر تنقید کرنے کی سازش میں بدل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اقلیتوں کے ووٹ کا استحصال کرتے تھے وہ اب ملک کے مثبت ماحول سے پریشان ہیں۔ وشو ہندو پریشد کے ترجمان سنیل بنسل نے ٹویٹ کیاکہ مسٹر حامد انصاری جیسے لوگ آئینی عہدوں سے دستبردار ہوتے ہی سیدھے نیچے کیوں گر جاتے ہیں؟ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور انڈین امریکن مسلم کونسل جیسی بنیاد پرست تنظیموں تک پہنچتے ہی ان کے اندر کا جہادی اسلام کیوں جاگ جاتا ہے؟ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے کنوینر امیت مالویہ نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہا کہ محترمہ سونیا گاندھی کے پیارے اور سابق نائب صدر مسٹر انصاری نے امریکی قانون سازوں کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا ہے جن کی تاریخ ہندوستان مخالف موقف کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل جس نے یہ پروگرام منعقد کیا، اس کا تعلق ہندستان میں کالعدم جماعت اسلامی سے ہے۔اس تقریب میں امریکی قانون سازوں نے منتظمین اور مسٹر انصاری کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی آمریت اور امتیازی سلوک اور بھید بھاؤ کے بہت سے مسائل ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تنزلی، انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی قوم پرستی کا عروج دیکھ رہی ہے۔ہندستان 2014 سے ڈیموکریسی انڈیکس میں 27 سے 53 ویں نمبر پر آ گیا ہے، اور ’فریڈم ہاؤس: نے ہندستان کو’ ‘آزاد‘ سے ‘’جزوی طور پر آزاد‘ کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہندوستان مذہبی آزادی، آزادی، اجتماعیت، رواداری اور اختلاف رائے کے احترام کی راہ پر گامزن رہے۔

Related Articles