ثقافتی ورثے، ماحولیات کے تحفظ کی کوششیں ایک عوامی تحریک بن گئی: مودی
نئی دہلی، دسمبر۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک اور بیرون ملک ہندوستان کے ثقافتی ورثے اور ماحولیات کے تحفظ اور فروغ کے لیے کی جا رہی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے آج کہا کہ نئی اور اختراعی سوچ کے ساتھ ایسی کوششوں کو تحریک بنایا جانا چاہئے۔ جناب مودی نے آل انڈیا ریڈیو پر اپنے ماہانہ پروگرام من کی بات میں لوگوں کو سے یہ اپیل کی ۔ پروگرام میں انہوں نے یورپ کے قدیم ملک یونان کے شہر الیا میں اسکولی بچوں کی وندے ماترم گاتے ہوئے ویڈیو شیئر کی۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’جس خوبصورتی اور جذبات کے ساتھ انہوں نے وندے ماترم گایا ہے وہ حیرت انگیز اور قابل ستائش ہے۔ اس طرح کی کوششیں دونوں ملکوں کے لوگوں کو قریب لاتی ہیں۔ میں ان یونانی طلباء اور ان کے اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ان کی کوششوں کی تعریف کرتاہوں۔‘‘وزیر اعظم نے ،ہندوستان کے قدیم متن اور ثقافتی اقدار کو دنیا بھر میں مقبول بنانے کی کوشش کرنے والے پونے کے بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے، کہا کہ اس ادارے نے دوسرے ممالک کے لوگوں کو مہابھارت کی اہمیت سے واقف کرانے کے لیے آن لائن کورس شروع کیے ہیں۔ اگرچہ یہ کورس ابھی شروع ہوا ہے لیکن اس میں پڑھائے جانے والے کورس کے مواد کی تیاری سو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل شروع ہوئی تھی۔ جب اس ادارے نے اس سے متعلق کورس شروع کیا تو اسے زبردست رسپانس ملا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری روایت کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح جدید انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے ثمرات سات سمندر پار بیٹھے لوگوں تک کیسے پہنچتے ہیں اس کے لیے بھی نت نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ مختلف ممالک کے لوگ ہماری ثقافت کے بارے میں نہ صرف جاننے کے لیے بے تاب ہیں بلکہ اسے بڑھانے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔ سربیا میں ایسے ہی ایک اسکالر ڈاکٹر مومیر نکیک ہیں جنہوں نے سربیا کی دو لسانی ثقافتی لغت تیار کی ہے۔ اس ڈکشنری میں شامل سنسکرت کے 70 ہزار سے زیادہ الفاظ کا سربیائی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نکیچ نے 70 سال کی عمر میں سنسکرت زبان سیکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں مہاتما گاندھی کی تحریریں پڑھ کر تحریک ملی۔ جناب مودی نے کہا کہ بہت سے لوگ اپنے ملک میں بھی اس طرح کے جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ گوا کے ساگر مولے جی سینکڑوں سال پرانی کاوی پینٹنگ کو معدوم ہونے سے بچانے میں لگے ہیں، جس میں قدیم زمانے میں سرخ مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ کاوی پینٹنگ اپنے آپ میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ گوا میں پرتگالی دور حکومت میں وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں نے دوسری ریاستوں کے لوگوں کو اس شاندار پینٹنگ سے متعارف کرایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پینٹنگ ختم ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن مسٹر ساگر مولے جی نے اس فن کو نئی زندگی دی ہے۔ ان کی کاوشوں کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔