بشار حکومت کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوسکتے، امریکہ
واشنگٹن ،اکتوبر۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی نے ایک بار پھر سے امریکا کی جانب سے بشار الاسد کی موجودگی میں شام سے سفارتی تعلقات کی بحالی کو مسترد کردیا ہے۔ اسرائیلی اور اماراتی ہم منصبوں سے ملاقات کے دوران بلینکن کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت شام میں صرف انسانی ریلیف کے کاموں پر توجہ دے رہی ہے۔ بلنکن نے مشترکہ نیوز کانفرنس کے موقع پر کہا کہ ہم بشار الاسد کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔بلنکن کا کہنا تھا کہ ہم نے شام پر عاید پابندیاں ختم نہیں کی اور نہ ہی شام میں اپنا موقف تبدیل کیا ہے کہ شام میں سیاسی تبدیلی لائی جائے۔ ہمارے نزدیک یہی اہم اور ضروری ہے۔امریکی حکومت نے سیزر ایکٹ نامی قانون کے ذریعے سے گزشتہ سال بشار الاسدکے ساتھ کام کرنے والی ہرکمپنی پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ عرب ریاستوں خصوصا اردن نے شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی شروع کر دی ہے اور رواں ماہ کے دوران اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوئم نے بشار الاسد سے فون پر بات کی تھی ، جو کہ خانہ جنگی کے بعد سے پہلا ایسا رابطہ ہے۔ اس کے علاوہ مصر اور اردن کی مدد سے شام نے لبنان کو تیل کی فراہمی کا عمل بھی شروع کیا ہے۔ شام میں جنگ کی وجہ سے تقریبا 5 لاکھ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اسی دوران انتہا پسند گروپ داعش نے بھی سر اٹھایا اور دہشت اور خوف کا ایک وقت گزرا۔بشار الاسد نے روس اور ایران کی مدد سے اپنی حزب اختلاف کو کچل ڈالا ہے ،تاہم شام کے شمالی علاقوں میں اب تک اس کااثر ورسوخ قائم نہیں ہوسکا۔دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے کرد نئے اتحاد کی تلاش میں ماسکو کی طرف جھکنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں کردوں کی سربراہی میں قائم سیرین ڈیموکریٹک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے صدر الہام احمد ماسکو گئے تھے، تاکہ روسی حکام کو قائل کیا جا سکے کہ وہ سیرین ڈیموکریٹک کونسل اور شام حکومت کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کر سکیں۔ کردوں کی طرف سے نئی حکمت عملی امریکہ کے متزلزل موقف کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کا نتیجہ تھی اور امریکا کے سابق صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج کے اچانک انخلا کے اعلان سے کردوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ انہیں امریکانے فراموش کر دیا ہے۔ کردوں کی سربراہی میں قائم ایس ڈی ایف روسی فوجیوں کی موجودگی سے صبر اور تحمل سے نپٹ رہی ہے ،کیوں کہ روس کے فوجی شام اور ترکی کی سرحدوں پر گشت کرتے ہیں۔ اس سے قبل 2019 ء کے آخر میں ماسکو نے ایک خصوصی سفیر کو کردوں کی سیاسی قیادت اور عرب اور عیسائیوں کی سرکردہ شخصیات سے ملنے کے لیے شام روانہ کیا تھا۔