آیاصوفیا دنیا میں فن تعمیر کا ایک عالی شان نمونہ
آیا صوفیا استنبول میں جامع مسجد سلطان احمد کے قریب واقع ایک شاندار تاریخی عمارت ہیجو پہلے چرچ تھا ،جسے 532 عیسوی میں بازنطینی بادشاہ نے تعمیر کیا تھا۔ آیاصوفیا دنیا میں فن تعمیر کا ایک عالی شان نمونہ ہے،جسے رومی اور ترک انجینئر وں نے کمال مہارت سے دنیا کی شاندار عمارت کا روپ دیا ہے۔آج بھی دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح اس عالی شان عمارت کو دیکھنے آتے ہیں اور فن تعمیر کے اس عجوبے پر داد د یئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ترک عدالت میں مسجد کی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس کے نتیجے میں عدالت نے استنبول کی تاریخی عمارت آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم کرتے ہوئے مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ ’’ آیا صوفیہ اب ایک میوزیم نہیں کہلائے گاکیونکہ مقدس مقام کو میوزیم میں تبدیل کرنے کی بڑی غلطی کی تلافی کردی گئی ہے‘‘۔ تاریخی لحاظ سے اس عمارت کا جائزہ لیا جائے توسلطان محمد فاتح نے جب اس علاقے کو فتح کیا تو گرجا گھر کے پادریوں کو رقم دے کر عمارت کولے کر مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔یہ موقع قسطنطنیہ کیلئے تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ شہر کا نیا نام استنبول ہو گیا جو ایک مسلم شہر اور سلطان محمد کی سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکوت بن چکا تھا۔ کتھیڈرل کی عمارت مسجد بن گئی۔ عمارت میں کسی بنیادی تبدیلی کے بجائے اس کے ہر کونے میں ایک مینار بنا دیا گیا۔آیا صوفیا کے اندر اللہ تعا لیٰ اس کے پیارے رسول محمد ؐ اور ان کے نواسوں حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکے نام آویزاں کر د یئے گئے۔ مسیحیت سے منسلک نقش و نگار کو پلاسٹر یا اسلامی تزئین و آرائش سے چھپا دیا گیا لیکن سب سے اہم تبدیلی محراب کی تعمیر تھی تا کہ مسلمان قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ سکیں۔اس تاریخی مسجد کو 1934 ء میں کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔ ترک حکومت کا موقف ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی ملکیت ہونے کی بنا پر یہ انقرہ حکومت کی پراپرٹی ہے اور حکومت کی نظر میں یہ عمارت مسجد بنائے جانے کے زیادہ لائق ہے۔اس طرح 900 سال تک ایک چرچ، 500 سال تک ایک مسجد، بہت تھوڑے سے عرصے کے لیے میوزیم اور اب ایک مرتبہ پھر مسجد بننے والی آیا صو فیا کی عمارت اب بھی پوری مضبوطی اور شان سے کھڑی ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیا کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر د یئے ہیں۔صدارتی حکم کے بعد آیا صوفیا کی میوزیم کی حیثیت ختم ہوگئی ہے اور اس کا کنٹرول محکمہ مذہبی امور نے سنبھال لیا ہے۔ترکی کی اعلیٰ عدلیہ کونسل آف اسٹیٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 24 نومبر 1934کا حکومتی فیصلہ جس میں اس عمارت کی مسجد کی حیثیت ختم کرکے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔عدالتی فیصلے کے مطابق آیا صوفیا سلطان فاتح محمد ٹرسٹ کی ملکیت ہے جسے مسجد کے طور پر عوام کی خدمت کے لیے پیش کیا گیا تھا اور آیا صوفیا ٹرسٹ کی دستاویز میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ آیا صوفیا کو مسجد کے علاوہ کسی اور مقصدکے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے انتخابی مہم کے دوران متعدد مرتبہ آیا صوفیا کو ایک مرتبہ پھر مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ ترک عدالت کے آیا صوفیا کی بحیثیت مسجد اس کی حیثیت واگزار کرنے کے بعد وہاں اذان بھی دی گئی جسے ترک چینلوں نے براہ راست نشر کیا۔ صدر ایردوان نے عدالتی فیصلے کے بعد ہدایت کی کہ اس کا انتظام مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے حوالے کیا جائے اور وہاں نماز کا انتظام کیا جائے۔ ترکی کے اسلام پسند عوام برسوں سے آیا صوفیا کی اصلی حیثیت واگزار کیے جانے کے لئے تحریک چلارہے تھے اور اسی لئے عدالت میں اس کیلئے مقدمہ بھی دائر کیا گیا تھا۔ آیا صوفیا کی اصلی حیثیت واگزار کئے جانے پر عیسائی دنیا میں سخت تشویش پائی جارہی ہے۔ امریکہ اور یونان نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس ماہ ایک بیان میں ترک حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ آیا صوفیا کو عجائب گھر کے طور پر برقرار رکھے، تاکہ وہ ترکی میں مذہبی روایات کے احترام اور متنوع تاریخ کی مثال کے طور پر قائم رہے اور سب کے لیے اس تک رسائی یقینی ہو۔یونانی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ آیا صوفیا کی اصلی حیثیت بحال کئے جا نے سے ترکی اور دنیا بھر کے مسیحیوں میں ایک عظیم جذباتی خلیج پیدا ہوگی۔ اس بیان بازی میں عالمی ثقافتی ورثے کی دیکھ بھال سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکوبھی کود پڑا۔ افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ غرناطہ اور قرطبہ کی تاریخی مساجد کو گرجا گھر بنائے جانے پر اب تک امریکہ، یورپ اور تمام دنیا خاموش تماشائی بنی رہی ہیں۔لیکن اب ایک سابقہ عظیم الشان مسجد کی بحالی کے فیصلے پر افسوس کا اظہارکر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوان ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ’’ آیا صوفیا کا مسئلہ ترکی کی خود مختاری کا معاملہ ہیاور ترکی اپنے مسائل میں بیرونی افراد کو مداخلت کی اجازت نہیں دے گا۔ آیا صوفیا کے دروازے مقامی و غیر ملکی، مسلم و غیر مسلم کے لیے کھلے رہیں گے۔ بنی نوع انسان کا ورثہ آیا صوفیا اپنی نئی حیثیت کے ساتھ مخلصانہ ماحول میں ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ہم آہنگی پیدا کرے گا۔ 24 جولائی 2020 بروز جمعہ نماز جمعہ المبارک کے ساتھ 86 سال بعد آیا صوفیا کو عبادت کے لیے کھولنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ترکی میں عبادت کے لیے کھلے 435 گرجا گھر موجود ہونے کی یاددہانی کراتے ہوئے ترک صدر کے بقول آیاصوفیا کا جنم نو مسجد ِ اقصی کی آزادی کی خوشخبری ثابت ہوگا‘‘۔