کوریائی جنگ کے خاتمے کے اعلان کی تجویز پر شمالی کوریا کا متضاد ردِ عمل
سیول،ستمبر۔جنوبی کوریا کے صدر مون جائے اْن نے اس ہفتے کوریائی جنگ ختم کرنے کے باضابطہ اعلان کے بارے اپنی پیش کش پھر دوہرائی ہے۔اس کے جواب میں جمعرات کو شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ ری تھائے سونگ نے سرکاری میڈیا کے ادارتی نوٹ میں کہا ہے کہ ایسے میں جب امریکہ شمالی کوریا کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتا ہو تو جنگ کے خاتمے کا اعلان قبل از وقت ہو گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں جنوبی کوریا اور دیگر علاقوں میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اور امریکی ہتھیاروں کی تنصیبات کا حوالہ دیا۔مگر چند ہی گھنٹوں کے بعد شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اْن کی بہن کم یو جونگ نے جنگ کے خاتمے کی تجویز کو دلچسپ اور قابل تحسین قرار دیا۔جونگ حالیہ برسوں میں کوریائی سیاست میں ایک فعال کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر جنوبی کوریا کے ساتھ بات چیت کی بھی تجویز دی۔شمالی کوریا کے پہلے بیان میں امریکی فوجوں کو علاقے سے ہٹانے کی بات کی گئی تھی، جب کہ بعد میں کم یو جونگ نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ شمالی کوریا کے خلاف بیان بازی کو بند کیا جائے۔سئول میں قائم آسان انسٹی تیوٹ فار پالیسی سٹڈیز کے تحقیق کار گو میونگ ہیون کہتے ہیں کہ بظاہر شمالی کوریا کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان عدم اتفاق کو بھڑکایا جائے اور امریکہ کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ بلاسٹک میزائل کے تجربات کی نسبت یہ سستا سودا ہے۔واضح رہے کہ اعلان جنگ کے خاتمے کے امکانات کے بارے میں امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان تھوڑے بہت در پردہ اختلافات رہے ہیں۔اسی ہفتے امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ امریکہ اعلان جنگ کے خاتمے پر بات کرنے کے لیے کھلے دل سے تیار ہے۔جمعرات کو جاپان اور جنوبی کوریا کے امور کے نائب وزیر خارجہ مارک لیمبرٹ نے کہا تھا کہ ایسے اعلامیے کے بارے امریکہ کے کچھ تحفظات ہیں۔ انہوں نے ایک آن لائن فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم شمالی کوریا کو یہ غلط پیغام نہیں دینا چاہتے کہ ہم جنوبی کوریا سے اپنی فوجوں کو ہٹا رہے ہیں۔لیمبرٹ نے کہا کہ ہم شمالی کوریا سے براہ راست بات کر چکے ہیں اور ہم ان سے ہر جگہ بات کرنے کو اب بھی بغیر کسی شرط کے تیار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے اب تک جواب نہیں دیا۔ہم ان سے چند باتوں یا بہت سے موضوعات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ایسے مذاکرات کے لیے آپ کے پاس کچھ لینے دینے کے لیے ہو، جو فی الوقت ہمارے پاس نہیں ہے۔لیمبرٹ نے مزید کہا کہ امریکہ مذاکرات کے لیے بے حد سنجیدہ ہے۔اس ساری بیان بازی سے یہ واضح نہیں ہوا کہ شمالی کوریا، امریکہ اور جنوبی کوریا کے مابین در پردہ کسی جزوی اختلاف سے فائدہ اٹھا سکے گا یا نہیں۔لیمبرٹ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں دونوں اتحادی مختلف راستہ اختیار نہیں کریں گے۔بقول ان کے میرے لیے اس وقت تشویش کی بات ہو گی جب شمالی کوریا کے سلسلے میں جنوبی کوریا الگ خارجہ پالیسی اختیار کرے اور امریکہ الگ ۔انھوں نے کہا کہ اس وقت ہم باہمی مشورے اور تعاون سے سب کچھ کر رہے ہیں۔