اوپیک پلس کا تیل کی پیداوارمیں 20 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی پراتفاق

ویانا،اکتوبر۔تیل برآمدکنندگان کی تنظیم اوپیک اورغیراوپیک ممالک پر مشتمل گروپ نے بدھ کے روز ویانا میں منعقدہ اجلاس میں 2020 میں کووِڈ 19 کی وبا کے بعد تیل کی پیداوار میں نمایاں کٹوتی سے اتفاق کیا ہے اور اس نے امریکا اوردیگرممالک کی طرف سے مزید تیل نکالنے کے لیے دباؤ کے باوجود پہلے سے سکڑتی مارکیٹ میں سپلائی کومحدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ماہرین کے مطابق تیل کی پیداوار میں یہ کٹوتی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کی بحالی میں مدد دے سکتی ہے۔عالمی مارکیٹ میں اس وقت اقتصادی کساد ،امریکا میں سود کی بڑھتی ہوئی شرح اور مضبوط ڈالر کے خوف سے تیل کی فی بیرل قیمت قریباً 90 ڈالرتک رہ گئی ہے۔تین ماہ قبل عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی فی بیرل قیمت 120 ڈالر تھی۔اس معاملے سے آگاہ ایک ذریعہ نے بتایاکہ امریکا نے اوپیک پرزور دیا تھا کہ وہ کٹوتیوں کے فیصلے پر مزید پیش رفت نہ کرے کیونکہ مارکیٹ کے بنیادی اصول ان کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔اوپیک پلس نے اگست میں اپنے پیداواری ہدف سے قریباً 36 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کم کی ہے۔سٹی کے تجزیہ کاروں نے ایک نوٹ میں کہا ہے کہ ’’تیل کی قیمتوں میں اگر پیداوار میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی وجہ سے اضافہ ہوجاتا ہے تویہ ممکنہ طور پر امریکا میں وسط مدتی انتخابات سے قبل بائیڈن انتظامیہ کو پریشان کرے گا‘‘۔سٹی نیاوپیک کے خلاف امریکی اینٹی ٹرسٹ بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ’’امریکاکی طرف سے مزید سیاسی ردعمل سامنے آسکتے ہیں، جس میں اسٹریٹجک ذخیرے سے مزیداجراء کے ساتھ ساتھ کچھ وائلڈ کارڈز بھی شامل ہیں۔ان میں این اوپیک بل کو مزید فروغ دینا بھی شامل ہے‘‘۔جے پی مورگن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن تیل کے مزید ذخائرجاری کرکے جوابی اقدامات کرے گا۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ:سعودی عرب اور اوپیک پلس کے دیگر رکن ممالک نے کہا ہے کہ وہ تیل کی کسی خاص قیمت کے ہدف کے بجائے مارکیٹ میں عدم استحکام کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔اوپیک پلس تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اور روس سمیت دیگرپیداکنندگان پر مشتمل گروپ ہے۔منگل کے روز بینچ مارک برینٹ کروڈ کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا اور بدھ کو 93 ڈالر فی بیرل میں مستقبل کے سودے طے پائے ہیں۔مغرب نے یوکرین جنگ کے دوران میں روس پرتوانائی کوبہ طورہتھیاراستعمال کرنے کا الزام عاید کیا ہے جس سے یورپ میں توانائی کا بحران پیدا ہورہا ہے اور اس وجہ سے اس موسم سرما میں گیس اور بجلی کی بلا تعطل ترسیل میں فرق پڑسکتا ہے۔دوسری جانب ماسکو نے مغرب پرالزام عاید کیا ہے کہ وہ فروری میں روس کے یوکرین میں فوج بھیجنے کے جواب میں ڈالر اور سوئفٹ جیسے مالیاتی نظام کو ہتھیار بنا رہا ہے۔مغرب یوکرین روس فوج کی کارروائی کو جارحانہ جنگ کا نام دیتاہے جبکہ روس اپنے فوجی اقدامات کو خصوصی آپریشن قراردیتا ہے۔واضح رہے کہ روس کے نائب وزیراعظم الیگزینڈر نوواک نے اوپیک پلس کے اجلاس میں شرکت کے لیے ویانا کا سفر کیا ہے وہ یورپی یونین کی پابندیوں کی زد میں نہیں ہیں لیکن گذشتہ ہفتے انھیں امریکا کی پابندیوں کا شکارخصوصی نامزد شہریوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

Related Articles