روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کی ڈیل ناکامیوں کی زد میں
ڈھاکا/ینگون،اکتوبر۔بنگلہ دیش سے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے معاہدے کو عملی ناکامیوں، حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے اور سفارتی سطح پر متضاد بیانات سے شدید نقصان پہنچا ہے۔بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے ایک کیمپ میں پناہ گزین اور چھ بچوں کے والد علی نامی ایک مسلمان مہاجر کا کہنا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ اسے ممکنہ طور پر بنگلہ دیش میں طویل عرصے تک قیام کرنا پڑ سکتا ہے۔ علی کے بقول ممکن ہے کہ یہ قیام کئی نسلوں پر محیط ہو۔میانمار کی حکومت نے پچھلے سال نومبر میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ بنگلہ دیش میں قیام پذیر تقریباً ایک ملین میں سے ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مہاجرین کو واپس لے لیا جائے گا۔ تاہم بنگلہ دیش کی جانب سے ابتدائی طور پر فراہم کردہ روہنگیا مہاجرین کی ایک فہرست میں درج قریب آٹھ ہزار ناموں میں سے میانمار کی حکومت نے اب تک صرف 675 افراد کی واپسی کے لیے تصدیق کی ہے۔ اس کی وجہ شناخت کے عمل میں متضاد معلومات قرار دی گئی ہیں۔ میانمار نے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ واپسی کے لیے صرف ان روہنگیا مہاجرین کو جائز حقدار سمجھے گا، جو ماضی میں میانمار میں اپنی رہائش سے متعلق دستاویزات پیش کر سکیں گے۔روہنگیا مہاجرین 1978ء سے مختلف ادوار میں پناہ کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرتے آئے ہیں۔ انہیں میانمار میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مبینہ تشدد کا سامنا ہے۔ اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں ملکی فوج کے کریک ڈاؤن کے سبب تقریباً ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مسلمان فرار ہو کر زیادہ تر بنگلہ دیش کے ضلع کوکس بازار میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ میانمار کی فوج کی اس کارروائی کو ’نسل کشی‘ سے تعبیر کر چکا ہے جبکہ میانمار کی حکومت اس موقف کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ایسی خبروں کو مسترد کرتی ہے۔روہنگیا مہاجرین کی واپسی کے معاملے پر بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے مابین اتفاق رائے ہوئے اب پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک یہ ڈیل عملی شکل اختیار نہیں کر پائی۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر پانچ افراد پر مشتمل ایک روہنگیا خاندان کو واپس میانمار بھیجا گیا تھا۔ڈھاکا میں بنگلہ دیشی وزیر داخلہ نے اسے ’محض ایک تشہیری مہم اور بے معنی‘ قرار دیا تھا۔خبروں کے مطابق اسد الزمان خان نے کہا کہ وہ جو بھی کہتے ہیں، میانمار کی حکومت اسے مان تو لیتی ہے لیکن اب تک وہ ایسی اعتماد سازی نہیں کر سکی، جس کی بنیاد پر روہنگیا مہاجرین کی واپسی ممکن ہو سکے۔ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ایک ’بنگالی‘ اقلیت قرار دیتی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے سبب وسیع پیمانے پر نقل مکانی کے تناظر میں میانمار کی حکومت پر عالمی برادری نے کافی دباؤ ڈالا ہے اور اسی دباؤ کے نتیجے میں وہ روہنگیا مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت دینے پر رضامند تو ہو گئی تھی تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں ابھی تک کئی سفارتی اور دستاویزی رکاوٹیں موجود ہیں۔