ماحولیاتی تبدیلی سے مغربی امریکہ میں 12 صدیوں کی بدترین خشک سالی

واشنگٹن ،فروری۔امریکہ کیمغربی حصوں میں بڑے پیمانے پر جاری خشک سالی گزشتہ 12 سو برسوں کی شدید ترین صورت حال ہے جسے ماحولیاتی تبدیلی نے بدترین بنا دیا ہے۔ایک نئی تحقیق کے مطابق سن 2021 اس خطے کے لیے خشک ترین سال رہا۔ یہاں تک کہ اس خشک سالی نے16ویں صدی کی خشک سالی کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔” نیچر کلائمیٹ چینج”نامی جریدے میں شائع ہونے والی تازہ ترین تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ 22 سال سے جاری اس خشک سالی کی شدت میں مستقبل قریب میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔محققین کہتے ہیں کہ خشک سالی کا 42 فیصد سبب انسانی وجہ سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے منسلک موسمیاتی ہائیڈروولوجسٹ اور اس تحقیق کے لیڈ مصنف پارک ولیمز کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی امریکہ کے مغربی حصے میں بنیادی موسم کو مزید خشک بنارہی ہیجس کا مطلب ہے کہ پہلے سے ہی بدتر صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال 1900 کی دہائی میں ظاہر کیے گئے خدشات کے عین مطابق ہے۔ تاہم وہ محسوس کرتے ہیں کہ مستقبل کے حالات کے لیے بھی تیاری کرنے کی ضرورت ہے جو اس سے کہیں زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔آگ نے کیلی فورنیا کے شمال میں چار لاکھ 63 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ولیمز نے تحقیق کے دوران کیلی فورنیا، وومنگ، یوٹاہ، نیواڈا، ایریزونا، زیادہ تر اوریگان اور ایڈاہو، نیو میکسیکو کا زیادہ تر حصے، مغربی کولوراڈو، شمالی میکسیکو، اور مونٹانا اور ٹیکساس کے جنوب مغربی کونے پر مشتمل امریکی مغرب میں مٹی میں نمی کی سطح کا مطالعہ کیا۔ ان کی تحقیق جدید پیمائشوں اور 800 سال تک کے قدیم درختوں کے مطالعے سے متعلق دستیاب معلومات پرمبنی ہے۔کچھ سال پہلے ولیمز نے موجودہ خشک سالی کا مطالعہ کر کے کہا کہ اسے ایک طویل اور گہری "میگا خشک سالی” کہہ کر پکارا جاسکتا ہے۔ اس سیقبل صرف 1500 کے دوران بدترین خشک سالی کا ریکارڈ ملتا ہے۔ ان کا پہلا اندازہ یہ تھا کہ موجودہ جاری خشک سالی اس سے زیادہ طویل نہیں ہو گی کیونکہ میگا خشک سالی 20 سال کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔اور پھر سن 2019 بارشوں والا ایک سال تھا اس لیے ایسا لگتا تھا کہ مغربی علاقے کی خشک سالی ختم ہونے والی ہے۔ لیکن یہ خطہ 2020 اور 2021 کے آخر میں پھر خشک ہو گیا۔خشک سالی کو مانیٹر کرنے والے امریکی ادارے کے مطابق، مئی کے وسط سے لے کر 2021 کے آخر تک کیلی فورنیا کی تمام ریاست کو سرکاری طور خشک سالی کی لپیٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ اور ریاست کا کم از کم تین چوتھائی حصہ جون سے کرسمس کے تہوار تک خشک سالی کی بلند ترین سطح پر پایا گیا تھا۔اس رجحان کا جائزہ لیتے ہوئے ولیمز کہتے ہیں کہ اس صورت حال کا سن 2020 کے آخر سے 2021 تک زیادہ شدید ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ 2000 کے عشرے کی یہ خشک سالی کہیں بھی اختتام کے قریب نہیں ہیں،ان کے مطابق یہ خشک سالی اب 1500 کی صدی کے پرانے ریکارڈ سے 5 فیصد زیادہ خشک ہے۔خبر وں کے مطابق خشک سالی کے مانیٹر کیحوالے سے ایک رپوٹ میں کہا ہے کہ 55 فی صد امریکی مغرب کی خشک سالی کا شکار ہے جب کہ 13 فی صد کو خشک سالی کی دو بلند ترین سطحوں کا سامنا ہے۔خیال رہے کہ محققین نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ کے مغربی حصوں میں یہ بڑی خشک سالی 2002 میں شروع ہوئی تھی۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فاسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے جلانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی، گرم درجہ حرارت اور ہوا میں بخارات کو بڑھا نے کا باعث بن رہی ہے۔ماہرین نے منظر عام پر آنے والی اس تحقیق کو آنے والے حالات کے لیے خود کو تیار کرنے کا ایک اہم انتباہ قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں یونیورسٹی آف مشی گن کے ماحولیات کے ڈین جوناتھن اوورپیک کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی حقیقی طور پر جنوب مغرب میں پانی کی فراہمی کو متاثر اور جنگلات کو چولہے کی طرح گرم کر رہی ہے، اور اگر اس موسمیاتی تبدیلی کو جلد نہ روکا گیا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

Related Articles