اسلام نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
طارق اطہر حسین
ارشاد باری تعالیٰ ہے خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا۔ نبی اکرم کے وفات کے بعد کچھ ہی زمانہ گزرا تھا کہ اسلامی امت تقسیم ہوگئی اور مسلمان مختلف شاخوں میں تقسیم ہوگئے اور قرآن کریم کی نصیحتوں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی راہنمائی کے برخلاف فرقہ واریت کی لہر نے پورے اسلامی معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔فرقہ واریت کی رشد ونمو اور اس کے تسلسل نے بہت سے علماء اور دانشوروں کو غور وفکر کرنے پر مجبور کر دیا اور اس حقیقت کو ان کے لئے آشکار کر دیا کہ ایک طرف تو مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے بدبینی اور جدائی کے اسباب کو ختم کیا جائے اور دوسری طرف اسلام کے اصلی منابع اور مآخذ میں دین کی اصل اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ لیکن افسوس کہ یہ سعی و کوشش ناکام ہوگئی اور بری عادت لکھنے والوں نے اتحاد کے بجائے جدائی اور تفرقہ کا نعرہ لگادیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی دشمنوں کے ساتھ مل گئے اور بدصفت لوگوں کے ہم صدا ہو کر مسلمانوں کو دور کرنے اور فرقوں کی تشکیل کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ لیکن نبی اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے پیچھے اللہ کا کلام اور اپنے مبارک عمال کو صحابہ اکرام کے ہاتھوں کر دیا اور دین اسلام کو ایک ضابطہ حیات عطا کیا آگے چل کر محدثین اور مفسرین علامہ حق نے اس ضابطہ کو محفوظ کر لیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دین اسلام کو ماننے والا ہر شخص خود کو صحیح بتاتا ہے دوسروں کے جہنمی اور اپنے جنّتی ہونے کے شب و روز اعلانات اور نعرہ زنی کرتا ہے وہ کیوں بھول جاتا ہے کہ قرآن حکیم میں ﷲ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اسی طرز فکر اور خوش فہمیوں کی شدید مذمت کی ہے، مفہوم: ’’اور یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی چیز (حق) پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی کسی چیز (حق) پر نہیں اور حالاں کہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا پھر بھی عقل نہیں رکھتے۔‘‘قرآن حکیم کا تجزیہ صدفی صد حق ہے اس لیے کہ ہم قرآن پڑھتے ضرور ہیں مگر حسن نیّت اور اصلاح اقوال کی غرض سے اس میں غور و فکر نہیں کرتے۔ آج نوجوانوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہر چوک اور چوراہوں پر ایک بھی آیت اللہ کی ذات اقدس کے طرف سے نازل کی ہوئی صحیح طور پر پڑھ بھی نہیں پاتے اور بحث و مباحثہ اس طرح کرتے ہیں جیسے کہ دین اسلام کے ٹھیکے دار انکے والد ہیں، صد افسوس ہے، انہیں علم بھی نہیں کہ انکے عمال قیامت کے روز انکے منہ پر مار دیے جاؤیگے۔ ہمارے اندر یہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم شعوری و لاشعوری طور پر جڑوں کو چھوڑ کر شاخوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مشکلات اور مبہمات کی تفسیر اور اپنی سنت کی تفصیلات اپنے بلا واسطہ شاگرودں یعنی صحابہ کرام کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ سکھلائیں، اس لیے جمہور صحابہ کا عمل پوری شریعت الٰہیہ کا بیان و تفسیر ہے؛ اس لیے مسلمان کی سعادت اسی میں ہے کہ ہر کام میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرے، اور جس آیت یا حدیث کی مراد میں اشتباہ ہو اس میں اس کو اختیار کرے جس کو جمہور صحابہ کرام نے اختیار فرمایا ہو ۔ اس مقدس اصول کو نظر انداز کر دینے سے اسلام میں مختلف فرقے پیدا ہوگئے کہ تعامل صحابہ اور تفسیرات صحابہ کو نظر انداز کرکے اپنی طرف سے جو جی میں آیا اس کو قرآن و سنت کا مفہوم قرار دے دیا، یہی وہ گمراہی کے راستے ہیں جن سے قرآن کریم نے بار بار روکا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا، اور اس کے خلاف کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔”رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوںگے تو وہ ﷲ کے سایہء رحمت میں ہوں گے اور (پھر) ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے“۔(آل عمران)ہمیں چاہیے کہ فقہِ سلف اور منہج اہلسنت پر کام کریں ایسا نہ ہونے پائے کہ لوگ تفرقہ کی ایک صورت سے نکلے اور دوسری میں جا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور علماء اکرام سے رجوع کریں حق بات کی تصدیق کرتے ہوئے دین اسلام کی تعلیمات پر خصوصی توجہ دے اور اپنی آخرت کی زندگی کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ جمع کریں۔