صدام حسین: سابق عراقی صدر کے ’24 لیٹر خون‘ سے لکھے گئے قرآن کے نسخے کا معمہ

بغداد،ستمبر۔1990 کی دہائی کے آخر میں صدام حسین نے ایک عجیب و غریب درخواست کے ساتھ ایک خطاط (کیلی گرافر) سے رابطہ کیا۔سنہ 1979 میں برسراقتدار آنے والے صدام حسین سنہ 2003 میں عراق میں امریکی مداخلت تک عراق کے صدر رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ قرآن کی ایک ایسی کاپی تیار کی جائے جس میں سیاہی کی جگہ اْن کا خون استعمال ہو۔اس کہانی کے مطابق دو سال کے عرصے تک ہر ہفتے صدام حسین ایک نرس کو اپنا بازو پیش کرتے تھے تاکہ وہ اس میں سے ان کا خون نکال سکے جس کے ذریعے یہ قرآن لکھا جانا تھا۔اس کام پر اٹھنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر تفصیلات بھی متنازع ہیں۔ مگر بارہا سامنے آنے والے دعوؤں کے مطابق اس قرآن کے 605 صفحات (114 سورتیں) لکھنے کے لیے صدام حسین کا 24 لیٹر خون استعمال ہوا۔امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سینٹر فار کنٹیمپریری (ہم عصر) عرب سٹڈیز کے ڈائریکٹر جوزف ساسون کہتے ہیں کہ اس قرآن کی تکمیل کے بعد اسے بڑی دھوم دھام کے ساتھ صدام حسین کو پیش کیا گیا تھا۔ ساسون صدام حسین پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔امریکہ میں کیلیفورنیا کے نیول گریجویٹ سکول میں سیاسی حکمت عملی کے پروفیسر سیموئل ہیلفونٹ کا کہنا ہے کہ ’صدام کو اس پر بہت فخر تھا۔ انھوں نے اس قرآن کے ساتھ بہت سی تصاویر بنوائی تھیں۔‘الگ الگ صفحات پر مشتمل اس قرآن کے نسخے کو بغداد کی مسجد جامع ام القری میں رکھا گیا تھا۔ یہ مسجد بھی صدام حسین نے تعمیر کروائی تھی اور اس میں چار بڑے مینار ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس مسجد کے مینار کلاشنکوف (اے کے 47) کی نوک سے ملتے جلتے ہیں۔اس قرآن کی تقریب رونمائی کو عراقی اور بین الاقوامی میڈیا نے کور کیا تھا۔ 25 ستمبر 2000 کی رپورٹس کے مطابق صدام حسین نے قرآن کا یہ نسخہ اس لیے بنوایا تاکہ اللہ انھیں ان کے سیاسی سفر میں ’سازشوں اور خطرات‘ سے محفوظ رکھے۔اس زمانے میں سرکاری میڈیا کو ریلیز کیے گئے اپنے ایک خط میں صدام حسین نے کہا تھا کہ ’میری زندگی خطرات سے گِھری ہوئی ہے جس میں میرا بہت زیادہ خون ضائع ہو سکتا تھا۔۔۔ مگر میرا کم ہی خون ضائع ہوا۔ پھر میں نے درخواست کی کہ خدا کی کتاب کے الفاظ میرے خون سے لکھ کر نذرانہ عقیدت پیش کیا جا سکے۔‘کچھ لوگ کا خیال ہے کہ انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ اس دور میں اپنی ذات کو درپش بحرانوں سے گزر رہے تھے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ستمبر 1996 کے ایک حملے میں اپنے بیٹے عدی صدام حسین کے بچ جانے پر خدا کے شکرگزار تھے۔مگر ساسون کے مطابق اس کی وجہ کچھ اور تھی۔ساسون کہتے ہیں کہ خون سے لکھا گیا قرآن ایک مثال ہے کہ کیسے کوئی آمر اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز کو استعمال کر سکتا ہے، چاہے وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو۔وہ کہتے ہیں ’1990 کی دہائی میں ایران کے ساتھ جنگ کے اختتام پر صدام کو احساس ہوا کہ ایرانی مذہبی سوچ پورے عراق میں پھیلتی جائے گی۔ انھوں نے کْھل کر یہ کہا کہ بعث پارٹی کے نوجوان بنیاد پرستی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔‘ساسون کے مطابق ’مجھے نہیں لگتا کہ وہ واقعی زیادہ مذہبی ہو گئے تھے۔ انھوں نے سیاسی مقاصد کے لیے یہ دکھاوا شروع کر دیا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مساجد تعمیر کروائیں اور ایک بڑی یونیورسٹی بھی جسے وہ قرآن کی تعلیم کا بڑا ادارہ کہتے تھے۔ ان کی نظر میں یہ خیال بہت اچھا تھا کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ وہ اس سے لوگوں کو اپنی جماعت کی حمایت کے لیے مائل کر سکیں گے۔ وہ قرآن کو ایسے پڑھیں گے جس سے وہ انھیں اپنا رہنما مان سکیں۔ اس سے ان کے لیے آسانی ہو جائے گی کہ وہ عوام کو مذہب کے ذریعے کنٹرول کر سکیں۔‘وہ اس کی مثال دیتے ہیں کہ صدام حسین نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خواتین سے متعلق اپنا رویہ تبدیل کیا۔ ’جب وہ 1968 میں سیاست میں آئے تو روایات پر ہنستے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ خواتین کے پاس بھی ووٹ کا حق ہو، مزدوروں کو حقوق ملیں اور سب کے لیے تعلیم کے مواقع پیدا ہوں۔‘’وہ معاشرے میں عورتوں کے کردار کے حقیقی محافظ تھے لیکن 1990 میں انھوں نے اپنا لہجہ تبدیل کیا اور کہنا شروع کیا کہ عورتوں کی جگہ گھر ہے اور ان کا کام زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ’مذہبی جنون اور بے روزگاری بڑھ رہی تھی۔ کویت کے ساتھ جنگ میں سات لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔‘ساسون کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ خواتین کی نوکریاں مردوں کو مل جائیں (جیسے پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ میں ہوا) تاکہ بے روزگاری کے باعث معاشرے میں پیدا ہونے والا تناؤ کم ہو سکے۔ہیلفونٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خون میں کچھ کیمیائی مادے ملائے گئے تاکہ اسے سیاہی کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔‘لیکن کیا یہ واقعی صدام حسین کا خون تھا؟ ساسون کے مطابق ممکن ہے کہ صدام نے کچھ خون اس کے لیے دیا تھا مگر انھیں شک ہے کہ یہ تمام خون ان ہی کا تھا کیونکہ اتنے زیادہ صفحات کے لیے بہت زیادہ خون درکار تھا۔ایک اندازے کے مطابق ایک شخص سال میں چار مرتبہ 470 ملی لیٹر خون تک کا عطیہ کر سکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ صدام نے یہ تمام خون دو سے تین برسوں کے دوران عطیہ کیا جو بظاہر ناممکن لگتا ہے۔ماہرین کے مطابق انھیں کچھ چیزوں کا ڈر اور وہم تھا۔ مثلاً وہ روایت کے برعکس صدارتی محل آنے والے لوگوں سے ہاتھ ملاتے تھے اور نہ ہی گلے ملتے تھے۔ساسون کہتے ہیں کہ ’انھیں فلو (نزلہ) ہونا کا ڈر رہتا تھا۔ جب وہ رات کے کھانے پر جاتے تو کچھ بھی کھاتے پیتے نہیں تھے۔ صدارتی محل میں ان کا اپنا شیف تھا اور ایک لیب میں کھانے میں زہر کی ملاوٹ کی جانچ کی جاتی تھی۔‘’تو میں صاف ہاں یا نہ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ امکان بہت کم ہے کہ انھوں نے (قرآن لکھنے کے لیے) سارا خون خود عطیہ کیا۔‘سنہ 2003 میں صدام حسین کے زوال کے بعد خون سے لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کو چھپا دیا گیا۔ اسے اسی مسجد میں تین دروازوں کے اندر محفوظ کر لیا گیا تاکہ اس سے اْن کے تعلق کو ختم کیا جا سکے۔ہر صفحے کو بلٹ پروف شیشے کے خانوں میں رکھا گیا تھا۔ قرآن کے نسخے کو حاصل کرنے کے لیے تین چابیاں درکار تھیں اور قرآن کے تمام صفحات ایک ہی جگہ پر محفوظ نہیں کیے گئے تھے۔امریکی مداخلت کے بعد ان صفحوں کی نگرانی پر مامور ایک شخص نے برطانوی اخبار دی گارڈیئن کو بتایا تھا کہ ’نسخے کو حاصل کرنے کے لیے تین چابیاں درکار ہوتی ہیں۔۔۔ ایک میرے پاس ہے، ایک علاقے کے پولیس سربراہ کے پاس اور تیسری بغداد کے کسی دوسرے حصے میں رکھی گئی ہے۔‘صحافی کو اس نسخے تک رسائی نہیں دی گئی تھی اور اسے بتایا گیا کہ ’اس کے لیے کمیٹی کی اجازت درکار ہے۔‘اس نسخے کو لکھنے والے خطاط عباس شاکر جودی نے عراق چھوڑ دیا تھا اور کم از کم ایک دہائی قبل تک وہ امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم تھے۔سنہ 2003 کے بعد عراق سے صدام کی کئی یادگاریں ہٹا دی گئی ہیں۔ ان کی وراثت کو مٹانے کے لیے ان سے وابستہ متعدد عمارتوں کے نام تبدیل کیے گئے مگر قرآن کے حوالے سے حکام اس مخمصے کا شکار ہوئے کہ اسے ختم کر دیا جائے یا چھپا دیا جائے۔ہیلفونٹ کے مطابق یہ مذہبی مسئلہ بن گیا ہے۔ ’ایک طرف اسے بیشتر مذہبی سکالر گستاخانہ سمجھتے ہیں (جسم سے نکلنے والے خون کو ناپاک سمجھا جاتا ہے) جبکہ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی (کہ خون سے قرآن لکھا گیا ہو)۔‘’دوسری طرف اسلامی روایت میں قرآن خدا کا کلام ہے۔ لہذا آپ اسے تباہ نہیں کر سکتے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ فی الوقت سب سے بہتر یہ سمجھا گیا کہ اسے وہیں چھوڑ دیں، جہاں یہ تھا یعنی نظر میں نہ ہونے سے یہ اپنی اہمیت کھو دے گا۔آپ بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ قرآن کیا اب بھی بغداد کی اس مسجد میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔اس تک رسائی رکھنے والے کچھ افراد نے تصدیق کی ہے کہ اس قرآن کے کم از کم کچھ صفحات اب بھی وہاں موجود ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے خفیہ طور پر سعودی عرب کو ہدیے کے عوض دے دیا گیا تھا جبکہ بعض سمجھتے ہیں کہ اب یہ صدام حسین کی بیٹی کی ملکیت میں ہے، جو اْردن میں رہتی ہیں مگر کسی بھی بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔فرانسیسی مصنف ایمانویل کریری اور صحافی لوکس منگت سنہ 2018 میں بغداد گئے تھے اور ان کا صرف ایک مقصد تھا یعنی قرآن کے اس نسخے کو ڈھونڈنا مگر جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں، انھیں یہ کہیں بھی نہ مل سکا۔

Related Articles