انصاف کے متلاشی بے زبانوں کیلئے آواز اٹھاتا رہوں گا، گیری لینیکر

لندن ،مارچ۔ پناہ گزینوں سے متعلق تنازع کے بعد معروف سابق فٹبالر گیری لینیکر نے ٹوئٹر پر حکومت کی اسائلم پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں انصاف کے حصول کیلئے سرگرداں بے زبانوں کیلئے آواز اٹھاتا رہوں گا۔ میچ آف دی ڈے کے میزبان نے کہا کہ اسائلم کے حوالے سے پلان میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، وہ اس سے مختلف نہیں ہے جو 30 میں جرمنی نے استعمال کئے تھے۔ وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے کہا کہ ان ریمارکس سے انھیں مایوسی ہوئی ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ بی بی سی کے غیر جانبدار رہنے کے بارے میں Lineker کے ساتھ ایک کھلی اور صاف گوئی پر مبنی بات چیت تھی۔ منگل کو حکومت نے پناہ حاصل کرنے کیلئے غیر قانونی طورپر برطانیہ میں داخل ہونے والوں پر پابندی لگانے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیموں نے چینل کراس کر کے آنے والوں کو گرفتار کر کے فوری ملک بدر کرنے کی تجویز پر شدید تنقید کی تھی لیکن وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینل کراس کر کے آنے والوں کو روکنا برطانوی عوام کیلئے ترجیح ہے۔ پروگرام پیش کرنے والے نے اپنے ٹوئیٹر پر اس پالیسی کو انتہائی کمزور اور بے سہارا لوگوں کیلئے انتہائی سفاکانہ پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پالیسی اس سے مختلف نہیں ہے، جو 30میں جرمنی نے اختیار کی تھی۔ کنزرویٹو ارکان پارلیمنٹ اور وزیر داخلہ بریور مین اور ڈاؤننگ اسٹریٹ سمیت وزرا نے ان کے ان ریمارکس پر شدید تنقید کی۔ Lineker کے حالیہ ریمارکس سے بی بی سی پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی غیر جانبداری کو بی بی سی کی پالیسی کا بنیادی ستون قرار دیتے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے Lineker نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ آج صبح آزادی اظہار کے چیمپئن بننے والوں کی جانب سے خود سے اتفاق نہ کرنے والوں کو خاموش رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے دیکھا، اس کے فوری بعد انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ میں نے اتنی محبت اور سپورٹ اپنی زندگی میں نہیں دیکھی جتنی آج صبح دیکھنے کو ملی۔ میں آپ سب کا، آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں ان لوگوں کے لئے آواز اٹھانے کی کوشش کرتا رہوں گا، جن کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ قبل ازیں وزیر داخلہ بریور مین نے بی بی سی کو کہا کہ ان کے تبصرے نے مجھے مایوس کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ہم برطانوی عوام کے ساتھ ہیں۔ بعد میں ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کہا کہ نئی اسائلم پالیسی پر Lineker کی تنقید ناقابل قبول ہے۔ وزیراعظم کے پریس سیکرٹری نے رپورٹروں کو بتایا کہ کسی ایسے شخص کی جانب سے، جس کی تنخواہ محنت کش برطانوی عوام کی اداکردہ فیس کے پیسوں سے اداکی جاتی ہے، اس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔ اب اس بات کا انحصار بی بی سی پر ہے کہ وہ کیاکرتا ہے، ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کریں گے۔ لیبر پارٹی کے قائد سر کیئر اسٹارمر نے کہا کہ 1930کے جرمنی سے موازنہ کرنا کوئی اچھا طریقہ نہیں ہے۔ لینیکر 1999سے میچ آف دی ڈے پروگرام پیش کررہے ہیں، ان کا شمار بی بی سی کے سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والوں میں ہوتا ہے اور 2020-21 میں ان کی آمدنی کم وبیش 1.35 ملین پونڈ تھی۔ وہ ماضی میں بھی مائیگرنٹس کے حقوق کے بارے میں بہت منہ پھٹ رہے اور وہ ریفیوجیز کو اپنے گھر بھی لے گئے تھے، وہ بریگزٹ سمیت کنزرویٹو حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں، اکتوبر میں بی بی سی کے شکایات یونٹ نے ان کی اس ٹوئٹ پر، جس میں انھوں نے الزام لگایا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی روسی عطیہ دہندگان سے بھی عطیات وصول کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، انھیں قرار دیا تھا کہ وہ غیرجانبداری کے اصولوں کی پامالی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے سربراہ ڈیوی نے 2020میں کہا تھا کہ وہ بی بی سی کی غیرجانبداری کی ساکھ کو تحفظ دینے کیلئے لوگوں کوبرطرف کرنے کو تیار ہیں۔ انھوں نے اس وقت سوشل میڈیا کے حوالے سے نئی گائیڈ لائن جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو ٹوئٹر سے دور کردوں۔ اس وقت لینیکر نے کہا تھا کہ میں سمجھتاہوں کہ ٹوئٹر ہی لوگوں کو ٹوئٹر سے دور کرسکتا ہے۔Lineker نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے کمنٹس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ کارپوریشن کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بی بی سی کی سوشل میڈیا کے حوالے سے گائیڈلائن موجود ہے، جو شائع کی جاچکی ہے اور جو لوگ ہمارے لئے کام کرتے ہیں، وہ سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں۔ اگر ضروری محسوس ہو تو ہمارا اندرونی مناسب نظام موجود ہے۔ کارپوریشن اس سے قبل بھی Lineker کی تنقید پر یہ واضح کرچکی ہے کہ ان کا نیوز یا سیاسی پروگراموں سے کوئی تعلق نہیں ہے، فری لانس براڈکاسٹر ہیں، وہ بی بی سی کے عملے کا حصہ نہیں ہیں۔

 

Related Articles