اسرائیلی موساد کے سربراہ ایران معاہدے پر امریکی حکام سے ملاقات کریں گے

تل ابیب،اگست۔اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ستمبر کے اوائل میں ایران جوہری معاہدے کی ممکنہ بحالی پر بات چیت کے لیے امریکا کا دورہ کریں گے۔صہیونی ریاست مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کے 2015 میں طے شدہ تاریخی معاہدے کی بحالی کی مخالفت کررہی ہے اور وہ اس ضمن میں مغربی طاقتوں پرسفارتی دباؤ ڈال رہی ہے۔موساد کے سربراہ کا امریکا کا مجوزہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی مالی معاونت میں سہولت فراہم ہوگی اور تہران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے نہیں روکا جا سکے گا جبکہ ایران نے اس دعوے کی ہمیشہ تردید کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پْرامن مقاصد کے لیے ہے۔خبروں کے مطابق ایک سینیراسرائیلی عہدہ دار نے مزید تفصیل فراہم کیے بغیرنام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا ’’ایران معاہدے پر کانگریس کے بند کمرے اجلاسوں میں شرکت کریں گے اور وہ آیندہ ایک ہفتے میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے‘‘۔اس سے قبل اتوار کے روز اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپیڈنے کہا تھا کہ اس معاہدے کے خلاف اسرائیل کی ’’سفارتی جنگ‘‘ میں اس کے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیردفاع بھی شامل ہیں اور وہ امریکا میں حالیہ ملاقاتیں کررہے ہیں۔لاپیڈ نے کہا کہ ہم اس معاہدے سے وابستہ خطرات سے امریکیوں اور یورپیوں کو آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ 2015 میں دست خط شدہ معاہدہ کوئی’’اچھا معاہدہ نہیں‘‘تھا اوراس وقت جومعاہدہ تیارکیاجارہاہے،اس میں ’’زیادہ خطرات‘‘ شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایک نئے معاہدے میں مدت ختم ہونے کی تاریخ اور سخت نگرانی شامل کرنا ہوگی۔اس میں ’’ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور پورے مشرق اوسط میں اس کی دہشت گردی کی حمایت‘‘ سے بھی نمٹا جانا چاہیے۔لاپیڈ نے کہاکہ اگرکسی قابلِ اعتماد فوجی خطرے پر بات چیت کی جائے،اگرایرانیوں کواحساس ہوکہ انھیں نافرمانی اور فریب کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی تو ہم اس طرح کے کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔انھوں نے مزیدکہاکہ فوج اور موساد کو’’ہماری جانب سے کسی بھی منظر نامے کی تیاری کی ہدایات موصول ہوچکی ہیں‘‘۔گذشتہ بدھ کولاپیڈ نے کہا تھاکہ ایک نیا معاہدہ ایران کو سالانہ 100 ارب ڈالر دے گا۔اس رقم کوایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ حماس،حزب اللہ اور اسلامی جہاد استعمال کریں گے۔انھوں نے بتایا کہ وہ اس معاملے پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی قیادت کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔

 

Related Articles