عامر خان کی فلم لال سنگھ چڈھا اصل امریکی فلم فاریسٹ گمپ سے کتنی مختلف ہو گی؟

ممبئی،اگست۔بالی وڈ سٹار عامر خان کو سنہ 1994 کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’فاریسٹ گمپ‘ کے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک دہائی تک انتظار کرنا پڑا ہے۔اْنھوں نے ٹام ہینکس کی کلاسک فلم فاریسٹ گمپ کی باقاعدہ ماخوذ کہانی پر سنہ 2018 میں کام شروع کیا تھا اور اب یہ جمعرات (کل) سے تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔اس فلم کے لیے خان نے پہلی مرتبہ سکرین پلے لکھنے والے اتل کلکرنی اور ہدایتکار ادویت چندن کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔فلم کے پروڈکشن نوٹس کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ یہ ’اصل فلم کا ایک قابلِ عزت ورڑن ہو اور اسے ایک نئی اور پْرجوش سمت میں لے جایا جائے۔‘سکرپٹ کے پہلے مطالعے کے دوران فلم سازوں نے ٹرین کا ماحول پیدا کرنے کے لیے کمرے میں کچھ کرسیاں لگائیں۔ادویت چندن کہتے ہیں کہ ’ہم نے لوگوں کو اْن کی جگہوں پر بٹھایا اور پڑھنا شروع کیا۔ عامر خان لال سنگھ چڈھا کے کردار میں اس قدر ڈھل چکے تھے کہ یہ قدرتی طور پر ان میں جھلک رہا تھا۔ خان نے 10 سال اس کردار کے ساتھ گزارے ہیں۔‘انڈیا نے کئی ہالی وڈ، کوریائی اور یورپی فلموں کے ری میک بنائے ہیں مگر لال سنگھ چڈھا خاص ہے۔ فلم ساز کرن جوہر نے اپنے مشہور شو ’کافی وِد کرن‘ میں کہا کہ بالی وڈ میں اس سے قبل ’اتنی مشہور ہالی وڈ فلم‘ کا ری میک کبھی نہیں بنایا گیا ہے۔چندن کہتے ہیں کہ لال سنگھ چڈھا کسی ’انتہائی محبوب کلاسک گانے کے کوور جیسی ہے۔‘ ویسے تو فاریسٹ گمپ خالصتاً امریکی تناظر میں بنائی گئی فلم ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ’عالمی کہانی ہے جس میں ہم انڈین مزاج بھی شامل کر سکتے تھے۔‘جس طرح ہالی وڈ ورڑن میں نرم دل اور سادہ مزاج شخص فاریسٹ گمپ امریکہ کے تاریخ ساز لمحات مثلاً ویتنام جنگ، واٹرگیٹ سکینڈل وغیرہ سے گزرتا ہے، اسی طرح لال سنگھ چڈھا کی زندگی بھی 20 ویں صدی کے انڈیا کی ثقافتی اور سیاسی اتھل پتھل کے درمیان گزرتی ہے۔وہ کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی پہلی فتح اور پاکستان کے ساتھ کارگل کے مسلح تنازعے کا شاہد بنتا ہے۔چونکہ بالی وڈ کو میوزیکلز بے حد پسند ہیں اس لیے اس فلم میں بھی کئی گانے موجود ہیں۔ چندن کہتے ہیں کہ ’اگر کسی فلم میں گانے نہیں ہیں تو یہ مجھے انڈین نہیں محسوس ہوتی۔ فلم میں موجود گانے لال سنگھ چڈھا کے احساسات کی عکاسی کرتے ہیں اور ناظرین میں ویسے ہی جذباتی ردِعمل پیدا کرتے ہیں۔‘فلم میں فاریسٹ گمپ کی اصل کہانی میں کچھ رد و بدل کیا گیا ہے اور پروڈیوسرز کے مطابق ایسے عناصر شامل کیے گئے ہیں جو اسے انڈین رنگ دیتے ہیں۔مثال کے طور پر گمپ کے مشہور تشبیہی جملے ’زندگی چاکلیٹ کے ڈبے کی طرح ہے، آپ کو نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کو کیا ملنے والا ہے‘ کو گول گپوں سے بدل دیا گیا ہے۔اصل کہانی میں گمپ اپنا زیادہ تر وقت ایک بس سٹاپ کی بینچ پر بیٹھے گزارتا ہے جہاں وہ اجنبیوں کو اپنی زندگی کی کہانی سْناتا ہے۔ بالی وڈ ری میک میں ڈائریکٹر نے بس سٹاپ کو ٹرین سٹیشن سے بدل دیا ہے۔ہدایت کار ادویت چندن کہتے ہیں کہ ’ریلوے ہماری زندگیوں کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ یہ طویل سفر ہوتے ہیں جن میں کبھی کبھار 24 گھنٹے تک لگ جاتے ہیں اور آپ کے کئی دوست بنتے ہیں۔ آپ ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پانی کا تبادلہ کرتے ہیں اور آپ کا ان سے تعلق بن جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میں ٹرینوں میں دوست بنایا کرتا تھا اور پھر اْن کی سالگرہوں پر اْنھیں خط لکھا کرتا تھا۔‘فاریسٹ گمپ میں اس کی بہترین دوست جینی جس سے بعد میں اس کی شادی ہو جاتی ہے کے کردار نے ان کے استحصال کے شکار بچپن اور فاریسٹ گمپ کے پیار کا ردِ عمل دینے میں ناکامی پر ایک بحث کو جنم دیا تھا۔عامر خان کی ماخوذ کہانی میں اخلاقی ابہام نہیں ہے اور کرینہ کپور خان نے روپا کا کردار ادا کیا ہے جس کا بچپن مسائل سے بھرپور رہا ہے اور اْن میں بالی وڈ سٹار بننے کی ادھوری خواہش ہے۔چندن کہتے ہیں کہ جینی کی طرح ’روپا کی کہانی بھی ویسی ہی ہے مگر ہم نے اس کا انڈین روپ تلاش کر لیا ہے۔‘فلم سازوں کا کہنا ہے کہ چڈھا میں انڈیا کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ فاریسٹ گمپ کی طرح چڈھا کو مختلف جگہوں پر بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم ایک سو سے زائد علاقوں میں شوٹ کی گئی جن میں سے کئی جگہیں اتنی مشہور نہیں ہیں مثلاً جنوبی ریاست کیرالہ کا ایک نیچر پارک۔یہ حیران کْن بات نہیں کہ یہ فلم 58 سالہ عامر خان کے لیے جسمانی طور پر بہت مشقت طلب تھی۔فلم سازوں کا کہنا ہے عامر خان نے خود کو مصروف شہروں سے لے کر پہاڑوں تک میں بھاگ کر اس فلم کے لیے تیار کیا۔ چندن کہتے ہیں کہ ’شکر ہے کہ وہ فِٹ ہیں۔‘پروڈیوسرز کہتے ہیں کہ اس فلم کے دوران اْن کا گھٹنا بھی زخمی ہوا جس کی وجہ سے وہ بھاگنے والے کچھ مناظر میں لنگڑاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔چندن کہتے ہیں کہ ’وہ زخمی تھے مگر اْنھوں نے کام جاری رکھا۔ یہ فلم ان کے لیے کافی مشقت طلب تھی۔‘جب فاریسٹ گمپ پہلی مرتبہ ریلیز ہوئی تھی تو کچھ نقادوں کو اس کے حوالے سے شبہات تھے۔ نیویارک ٹائمز نے بھی اس پر تنقید کی تھی مگر تمام تنقید کے برعکس فاریسٹ گمپ امریکہ میں سب سے کامیاب فلموں میں سے ایک رہی اور سنہ 1994 میں اس نے چھ آسکر ایوارڈز جیتے تھے۔عامر خان کو امید ہو گی کہ لال سنگھ چڈھا کو انڈیا میں بھی ایسی ہی کامیابی ملے۔ادویت چندن کہتے ہیں کہ ’امید یہ ہے کہ جس کسی نے فاریسٹ گمپ نہیں دیکھی ہو گی، اْنھیں کہانی بیان کرنے کا یہ منفرد انداز پہلی مرتبہ دیکھ کر بہت اچھا لگے گا۔ اور وہ جنھوں نے فاریسٹ گمپ دیکھ رکھی ہے، وہ بھی اس کا نیا فلیور پسند کریں گے کیونکہ اس کہانی میں کچھ موڑ ہیں اور ہم نے کچھ سرپرائز بھی رکھے ہیں۔‘بالی وڈ کے سپرسٹارز کی فلموں کو رواں سال اب تک باکس آفس پر خاص جگہ نہیں مل سکی ہے۔ جنوبی انڈین زبانوں کی فلموں میں بہتر سکرپٹ اور شاندار مناظر نے ان فلموں کو زبردست کامیابی دلوائی ہے جس کی وجہ سے یہ فلم نقادوں اور فلم سازوں کی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔کیا لال سنگھ چڈھا بالی وڈ کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوا سکے گی؟ دیکھتے ہیں۔تصاویر بشکریہ عامر خان پروڈکشنز، وائیاکام 18 سٹوڈیوز، اور پیراماؤنٹ پکچرز۔سدھا جی تلک دلی میں مقیم صحافی ہیں۔

 

Related Articles