چینی وزیرِ خارجہ کا دورۂ کابل

بیجنگ کے پاس موقع ہے کہ افغانستان میں اثرو رسوخ بڑھائے

کابل/بیجنگ،مارچ۔چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی جمعرات کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچ گئے ہیں جہاں اْنہوں نے طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تاحال کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا، لہذٰا چینی وزیرِ خارجہ کے دورۂ کابل کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ملاقات میں سیاسی واقتصادی امور کے علاوہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں افغانستان کے کردار اور دیگر باہمی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔وانگ یی اسلام آباد میں ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کے بعد جمعرات کو کابل پہنچے۔عبدالقہار کے مطا بق چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے افغانستان میں کان کنی، توانائی اور اقتصادی زونز کے قیام کے لیے سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔گزشتہ برس اگست میں طالبان کی طرف سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وانگ یی افغانستان کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ چینی عہدیدار ہیں۔چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نیایک ایسے وقت میں کابل کا دورہ کیا ہے جب رواں ماہ کیآخر میں چین کی میزبانی میں بیجنگ میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کا اجلاس ہوگا جس میں افغانستان کی صورتِ حال زیرِ بحث آئے گی۔بیجنگ میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان اور چین کے اعلیٰ سفارت کاروں کے علاوہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔دوسری جانب افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف کی قیادت میں روسی وفد بھی جمعرات کو کابل پہنچا ہے۔ روسی وفد نے طالبان وزیر ِخارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیا احمد کے مطابق ملاقات میں سیاسی، اقتصادی، راہداری اور علاقائی روابط کو مضبوط بنانے پر تبادلۂ خیال ہوا۔افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ یوکرین تنازع کے دوران چین اور روسی حکام کا دورۂ کابل اہمیت کا حامل ہے۔طاہر خان کہتے ہیں اس صورتِ حال میں چین کے لیے موقع ہے کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے طالبان کے ساتھ رابطوں کو مضبوط کرے۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ پاکستان اور چین اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کے منصوبے کو وسعت دی جا سکتی ہے۔لیکن طاہر خان کہتے ہیں کہ چین اسی وقت افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے جب افغانستان میں امن و استحکام ہوگا۔دوسری جانب طالبان بین الاقوامی برادری کو باو ر کراتے آ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے لیکن طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ میں کئی قانونی اور سیاسی مشکلات حائل ہیں۔طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان کے کئی رہنماؤں کے نام اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیرات کی فہرست میں شامل ہیں۔ طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے علاوہ چین اور روس دو اہم ملک ہیں جو طالبان پر عائد تعزیرات کو ہٹانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔طاہر خان کہتے ہیں کہ جب تک قانونی مشکلات دور نہ ہوں بین الاقوامی برادری کے لیے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔طاہر خان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کو افغانستان میں چین مخالف ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (آئی ٹی آئی ایم) سے وابستہ عناصر کی مبینہ موجودگی پر تشویش ہے لیکن ان کیبقول چین طالبان کے کردار سے کسی حد مطمئن ہے کہ طالبان چین مخالف عسکریت پسندوں کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔لیکن طاہر خان کا کہنا ہے کہ چین کی تشویش کے باوجود بیجنگ اس معاملے پر کھلے عام بات کرنے کے بجائے یہ معاملہ طالبان کے ساتھ سفارتی سطح پر ہی اٹھاتا ہے۔طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم کے دفتر کے مطابق ملا عبدالغنی برادر نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو چین کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔گزشتہ سال اگست میں طالبان کے طرف سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی برداری طالبان پر زور دیتی آ رہی ہے کہ وہ معتدل پالیسی اپنائیں اور ایک جامع حکومت تشکیل دیں۔اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کانفرنس نے دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بھی افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل پر زور دیا ہے۔تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ چین اور روس خطے کے اہم ممالک ہیں جن کا طالبان پر کافی اثرو رسوخ ہے۔ ان کے بقول یہ دونوں ممالک طالبان کو بین الاقوامی برادری کے تحفظات دور کرنے پرقائل کر سکتے ہیں۔

Related Articles