جوہری معاہدہ: ایرانی قیادت کے لیے سچائی کا لمحہ آن پہنچا ہے، شولس
میونخ،فروری۔جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے تعطل کے شکار جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات گزرتے وقت کے ساتھ بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں اور تہران میں ملکی قیادت کے لیے اب سچائی کا لمحہ آن پہنچا ہے۔سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان اولاف شولس نے جنوبی جرمن صوبے باویریا میں جاری تین روزہ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوسرے دن ہفتہ انیس فروری کو شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ ویانا میں جاری ایرانی جوہری مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور گزشتہ چند برسوں سے جمود کی شکار نیوکلیئر ڈیل کی بحالی ممکن ہے۔تاہم جرمن چانسلر نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت کے باوجود گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے تہران میں ملکی قیادت کے لیے سچائی کی گھڑی اب آن پہنچی ہے۔اولاف شولس نے میونخ سکیورٹی کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا، ”اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ایک ایسے معاہدے تک پہنچا جا سکے، جس کے ذریعے ایران کے خلاف عائد پابندیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ لیکن اگر ہم بہت جلد کامیاب نہ ہوئے، تو ویانا بات چیت کے ناکام ہو جانے کا خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔‘‘جرمن چانسلر نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ”اب انتخاب ایرانی قیادت کو کرنا ہے، جس کے لیے سچائی کا لمحہ آن پہنچا ہے۔‘‘
معاہدہ تعطل کا شکار کیسے ہوا؟:ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے 2015ء میں ایک ایسا معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران کے خلاف عائد پابندیوں کے خاتمے پر اتفاق ہو گیا تھا اور بدلے میں ایران کو اپنی ایٹمی پروگرام کو محدود کرنا تھا۔اس معاہدے پر 2018ء تک فریقین کی طرف سے عمل بھی کیا جاتا رہا تھا۔ مگر پھر اسی سال اس دور کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے اس معاہدے سے یک طرفہ اخراج کا اعلان کرتے ہوئے ایران کے خلاف دوبارہ پابندیان عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد تہران نے بھی اپنی طرف سے اس ڈیل کے تحت خود پر عائد ہونے والی شرائط کا احترام بند کر دیا تھا۔ساتھ ہی ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات میں یورینیم کی اس معاہدے میں طے شدہ حد سے کہیں زیادہ شرح تک افزودگی بھی بحال کر دی تھی۔
نئے معاہدے کا خاکہ تیار ہے:ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے گزشتہ برس نومبر سے آسٹرین دارالحکومت ویانا میں تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین جو مذاکرات وقفے وقفے سے جاری ہیں، ان میں اب تک اتنی پیش رفت ہو چکی ہے کہ ایک نئے معاہدے کا خاکہ بظاہر مذاکرات کی میز پر ہے مگر اس پر حتمی اتفاق رائے ابھی تک نہیں ہو سکا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ابھی دو روز قبل ہی کہا تھا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ویانا مذاکرات میں کافی زیادہ ٹھوس پیش رفت ہوئی۔ ساتھ ہی ترجمان نے یہ بھی کہا تھا، ”اب اگر ایران کافی ثابت ہونے والی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، تو امریکا کی رائے میں 2015ء کے جوہری معاہدے کی مکمل بحالی کی ڈیل چند ہی دنوں میں ممکن ہے۔‘‘اس پس منظر میں جرمن چانسلر شولس نے آج ہفتے کے روز میونخ سکیورٹی کانفرنس میں جو کچھ کہا، اس کا مقصد بھی تہران پر یہ واضح کرنا تھا کہ جوہری معاہدے کی بحالی ممکن ہے، مگر اس میں جتنی تاخیر کی جاتی رہے گی، اس بحالی کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے۔