یوپی:دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کل، تیاریاں مکمل

لکھنؤ:فروری۔اترپردیش اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے تحت 9اضلاع کی 55سیٹوں پر سخت سیکورٹی انتظامات کے درمیان کل صبح 7تا شام 6بجے تک ووٹنگ ہوگی۔چیف الیکشن افسر اجئے کمار شکلا نے اتوار کو کہا کہ ان تمام سیٹوں پر مجموعی طور سے2.02کروڑ رائے دہندگان بشمول 1.05کروڑ مرد اور 94لاکھ خواتین 586امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کریں گے جن میں 69خواتین بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ انتخابات 12544پولنگ سنٹرس کے 23404پولنگ بوتھ پر رائے دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔سال 2017 میں ان سیٹوں پر مجموعی ووٹنگ کا اوسط فیصد65.53ریکارڈ کیا گیا تھا۔وہیں اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس(نظم ونسق) پرشانت کمار نے کہا آٹھ اسمبلی حلقوں بشموں نگینہ، دھام پور، بجنور، اسمولی، سنبھل، دیوبند، رامپور منہارن اور گنگوہ کو حساس حلقوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔دوسرے مرحلے میں 436بستیوں اورمقامات کو غیر محفوظ اور 4917پولنگ بوتھ کو حساس بوتھوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔اے ڈی جی نے بتایا کہ خواتین کے لئے 127 پنک بوتھ بنائے گئے ہیں جہاں پر 42خاتون انسپکٹر یا سب ۔انسپکٹر اور 488کانسٹیبل اور ہیڈکانسٹیبل تعینات کئے گئے ہیں۔اس مرحلے میں سنٹرل فورسز کی 733.44کمپنیوں کو 12544پولنگ بوتھ پر تعینات کیا گیا ہے۔ یو پی پولیس نے6860انسپکٹر اورسب انسپکٹر،54670کانسٹیبل و ہیڈکانسٹیبل کے ساتھ 18.01 کمپنی پی اے سی،930پی آر ڈی جوان اور 7746 چوکیداروں کو اس مرحلے میں تعینات کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق جن اضلاع میں ووٹنگ ہونی ہے تمام شراب کی دوکانیں 5بجے تک بند رہیں گی اور سرحدین سیل کردی جائیں گی۔جن اضلاع کی 55سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں امروہہ، سہارنپور،بجنور، رامپور، سنبھل، مرادآباد، بریلی، بدایوں اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔اس مرحلے میں یوگی حکومت کے تین وزیر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔سہارنپور سے سریش کھنہ،ضلع سنبھل کی چندوسی سے گلابو دیوی اور رامپور کی بلاسپور سیٹ سے بلدیو سنگھ اولکھ شامل ہیں۔اپوزیشن کے معروف چہرے جو انتخابی میدان میں ہیں ان میں سینئر سماج وادی پارٹی(ایس پی) لیڈر اعظم خان رامپور صدر سے،یوگی کابینہ کے سابق وزیر اور اب ایس پی امیدوار دھرم پال سنگھ سینی ضلع سہارنپور کی نکور سے اور امروہہ سے محبوب علی قابل ذکر ہیں۔مسلم اکثریتی علاقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف پارٹیوں نے 75سے زیادہ مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ ان میں بی ایس پی کے سب سے زیادہ 25،ایس پی۔ آر ایل ڈی اتحاد کے 18،کانگریس نے 23مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ وہیں ایم آئی ایم کے 15مسلم چہروں نے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔تقریبا ایک مہینے تک چلی انتخابی مہم میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں ایس پی۔ بی ایس پی ، آر ایل ڈی، اور کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والی 55سیٹوں میں سے تقریبا 25سیٹوں پر مسلم ووٹر اور 20سے زیادہ سیٹوں پر دلت ووٹر ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس علاقے میں سال 2017 کے مودی لہر نے دلت۔ مسلم صف بندی کی وجہ سے ماضی میں بی جے پی کے کمزور ہونے کے طلسم کو توڑتے ہوئے 55میں سے 38سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ جبکہ ایس پی کو 15اور اس کی اتحادی پارٹی کانگریس کو دو سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت ایس پی کے 15میں سے 10اور کانگریس کے دو میں سے ایک مسلم ایم ایل اے جیتے تھے۔ ماہرین کی رائے میں دلت ووٹوں میں تقسیم کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ سابقہ الیکشن میں بی ایس پی کا اس علاقے میں کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔اس الیکشن میں کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کی مشکلیں بڑھا سکتی ہے۔ وہیں مخالف خیمے میں ایس پی اس علاقے میں اپنے احتجاج کواک دم شباب پر لے جانے کے لئے کوشاں ہے۔ اس سے پہلے سال 2012 میں جب ایس پی نے حکومت بنائی تھی اس وقت بھی ایس پی کو اس علاقے کی 55سیٹوں میں سے 27سیٹوں میں جیت ملی تھی جبکہ بی جے پی کےکھاتے میں 8سیٹیں آئی تھیں۔دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والے 9اضلاع میں سے سات اضلاع رامپور، سنبھل، مرادآباد، سہارنپور، امروہہ، بجنور اور نگینہ میں دلت مسلم ووٹر ہی امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایس پی۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اتحاد کیا تھا اور ان سات اضلاس کی سبھی سات لوک سبھا سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ ان میں ایس پی کے رامپور مرادآباد اور سنبھل جبکہ بی ایس پی کو سہارنپور، نگینہ، بجنور اور امروہہ سیٹوں میں جیت ملی تھی۔واضح رہے کہ اس الیکشن میں ذات پات کی صف بندی کی بنیاد پر بی جے پی کے لئے سابقہ الیکشن کی طرز پر مذہب کی بنیاد پر اور سیکورٹی کے مسئلے پر ووٹوں کی تقسیم کرانا پڑا چیلنج ہے۔سبھی پارٹیوں کے امیدواروں کہ فہرست سے صاف ہوگیا ہے کہ اس علاقے میں الیکشن کا دارومدار دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن پر منحصر ہے۔ جہاں تک انتخابی مہم کا سوال ہے تو کورونا انفکشن کے خطرے کے درمیان ہورہے اس الیکشن میں گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں انتخابی مہم کا شور کافی کم رہا۔ الیکشن کمیشن کی گائیڈ لائن کے تحت ریلی، جلوس اور روڈ شو وغیرہ پر پہلے ہی روک لگا دی تھی۔ورچول انتخابی تشہیر کے معاملے میں بی جے پی نے اپوزیشن پارٹیوں کو ضرور پیچھے رکھنے کی کوشش کی لیکن 06فروری سے عوامی ریلیاں کرنے کی اجازات ملنے کے بعد ایس پی۔ بی ایس پی اور کانگریس محدود روڈ شو اور عوامی ریلیاں کر کے ووٹروں تک اپنے پیغام پہنچانے میں مشغول ہیں۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی ابتدا میں اگرچہ سے انتخابی مہم سے دور رہیں لیکن دو فروری سے انہوں نے مغربی اترپردیش میں تین ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا۔انتخابی ایجنڈوں کی اگر بات کی جائے تو کسان تحریک کا گڑھ رہے مغربی اترپردیش میں کسانوں کی پریشانیاں سب سے بڑا ایجنڈا ہیں۔ ماہرین کی رائے میں مودی حکومت بھلے ہی تینوں زرعی قوانین واپس لے کر سب سے لمبے کسان تحریک کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو لیکن کسانوں کاغصہ اب بھی بی جے پی کے لئے اس الیکشن کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔کسانوں کے اشتعال کو کم کرنے کے لئے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ترقیاتی کاموں کا اس علاقے میں جم کر انتخابی مہم چلائی ہے۔ بی جے پی نے شاہ کو مغربی اترپردیش میں پارٹی کا انتخابی انچارج بنایا ہے۔ یہ الیکشن شاہ کے انتخابی انتظامات کو بھی کسوٹی پر پرکھے گا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سال 2012 میں جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئی تھی اس وقت ایس پی نے 55میں سے 27سیٹوں پر جیت درج کی تھی جب کہ بی جے پی کے کھاتے میں محض 8سیٹیں آئی تھیں۔ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اکھلیش کے انتخابی نتائج کی لگاتار ناکامیوں پر اس الیکشن میں بریک لگتا ہے یا نہیں۔ وہ آر ایل ڈی کے جینت چودھری کے ساتھ پورے مغربی اترپردیش میں لگاتار انتخابی مہم کر کے کسانوں کے پریشانیوں کو اہم ایجنڈا بنارہے ہیں۔ جس سے کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کا وجئے رتھ روک سکے۔علاوہ ازین یہ الیکشن جینت چودھری کے لئے بھی سخت امتحان ہے۔ یہ انتخاب یہ طے کرےگا کہ وہ جاٹ لینڈ کے چودھری ہیں یا نہیں۔بی ایس پی کی بھی کوشش ہے کہ مغربی اترپردیش میں ایس پی آرایل ڈی اتحاد اور بی جے پی کی لڑائی کو سہ رخی بنا دیا جائے۔ اس علاقے کی دلت اکثریتی دو درجن سیٹوں پر اپنے امیدوار جتانے کی بی ایس پی کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ سابقہ امتحانات میں اس علاقے سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ کرپانے والی بی ایس پی کے لئے یہ الیکشن اپنے وجود کو ثابت کرنے والا ہوگیا ہے۔

Related Articles