کانگریس پارٹی اب اپنا نام بدل لے : مودی

نئی دہلی، فروری۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے وفاقیت پر بار بار سوال اٹھانے پر کانگریس پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنا نام ‘انڈین نیشنل کانگریس’ سے بدل کر’فیڈریشن آف کانگریس’ رکھ لینا چاہیے ۔منگل کو ایوان بالا راجیہ سبھا میں صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر گیارہ گھنٹے طویل بحث کا جواب دیتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ کانگریس کو ‘نیشن’ پر اعتراض ہے یعنی ‘نیشن’ اس کے تصور میں غیر آئینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انڈین نیشنل کانگریس کو اپنا نام بدل کر ‘فیڈریشن آف کانگریس’ رکھ لینا چاہیے ۔جب کانگریس کے ارکان سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے باہر نکلنے لگے تو وزیر اعظم نے کہا کہ جمہوریت میں صرف سنانا ہی نہیں بلکہ سننا بھی ہے ۔ برسوں سے اُدیش دینے کی عادت کی وجہ سے کانگریس کو الفاظ سننے میں دقت محسوس ہورہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئین کی تشکیل دینے والے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ انتظامی سہولت کے لیے ریاستوں کو تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن ملک مکمل طور پر ایک ہے ۔کانگریس پر اپنا حملہ جاری رکھتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو معمولی باتوں پر ہوائی اڈوں پر ہٹا دیا جاتا تھا۔ یہ آندھرا پردیش کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ٹی انجیا کے ساتھ ہوا جب ایک وزیر اعظم کے بیٹے کو ہوائی اڈے پر انتظام پسند نہیں آیا۔ اسی طرح کرناٹک کے وزیر اعلی ویریندر پاٹل کی بیمار ہونے پر تذلیل کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ کانگریس کی طرح تنگ نہیں ہے ۔ علاقائی مسائل کو حل کیا جائے اور علاقائی امنگوں کو پورا کیا جائے ۔ ملک کی ترقی تب ہوتی ہے جب ریاست ترقی کرتی ہے ۔ ملک خوشحال ہوگا تو ریاست خوشحال ہوگی۔انہوں نے الزام لگایا کہ مرکز میں کئی دہائیوں تک حکومت بنانے والی کانگریس نے ریاستوں پر ظلم کیا۔ ایک سو بار منتخب ریاستی حکومتوں کو برطرف کرکے صدر راج نافذ کیا گیا۔ ایک وزیر اعظم نے اپنے دور میں 50 ریاستی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا اور اب اسی سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی پالیسی ریاستی حکومتوں کو غیر مستحکم اور برخاست کرنے کی رہی ہے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ فاروق عبداللہ، دیوی لال اور چودھری چرن سنگھ کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا اور بالا صاحب ٹھاکرے کو بدنام کیا گیا۔ کیرالہ کی بائیں بازو کی حکومت پچاس کی دہائی میں برطرف کر دی گئی۔ این ٹی آر اور ملائم سنگھ یادو کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ریاستوں کی تقسیم کے وقت کانگریس کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے وقت گھر میں کالی مرچ کا اسپرے بھی کیا گیا تھا۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے دور میں تین ریاستیں بنی تھیں لیکن کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے عوام کے درمیان اب بھی تلخی برقرار ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت وفاقیت سے تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے اور ریاستوں کو مراعات دے رہی ہے ۔ جی ایس ٹی کونسل ٹیکس کی تشکیل اس کی ایک مثال ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ملک کے 100 خواہش مند اضلاع میں ترقی کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں اور بہت ہی کم وقت میں ایک ریاست کو چھوڑ کر بیشتر اضلاع میں ترقیاتی کام اوسط سے زیادہ ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کی سوچ کو ‘ اربن نکسل ازم’ نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ وہ بار بار کہتی ہیں کہ تاریخ بدل رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب وفاق کی مثالیں ہیں۔

Related Articles