جب والدین خود ہی زہر گھولنے لگیں

ہمارے ایک دور کے رشتے دار سلمان کی حال ہی میں پانچویں منگنی ٹوٹی۔ وہ پندرہ سال دیارِ غیر میں کاٹ کر اپنے خاندان کے تمام افراد کو غربت سے خوشحالی کا سفر طے کروا چکا ہے۔سلمان پانچ بہنوں میں سے چار کی شادی کے فرائض سے بھی سبکدوش ہو چکا ہے اور اب اپنا گھر بسانے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے لیکن اس کے گھر والے جہاں بھی رشتہ لے کر جاتے، بات شادی تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی۔بظاہر کوئی ایسی وجہ نہیں، جو سلمان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ بنتی۔ آخر کار سلمان کی منگنی اس کے بہت ہی قابل اعتماد دوست اکبر کی بہن سے طے پائی اور وہ باغ باغ ہو گیا۔اس رشتے کا بھی البتہ وہی انجام ہوا۔ منگنی ختم ہونے کا دکھ تو تھا ہی، لیکن اس کے عزیز دوست نے جو صورت حال اس کے سامنے رکھی، اس نے سلمان کو بہت زیادہ مضطرب کر دیا۔اکبر کا کہنا تھا کہ تمہارے گھر والے جان بوجھ کر ایسی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ رشتہ ٹوٹ جائے۔ وہ دراصل تمہاری شادی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ سلمان کا ذہن اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ کیا والدین بھی مطلب پرست ہو کر اپنی ہی اولاد کے خلاف شاطرانہ چالیں چل سکتے ہیں؟والدین تو ہمیشہ اپنی اولاد کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔ کیا اولاد سے بھی قربانی طلب کی جاتی ہے؟ والدین خود اولاد کا استحصال کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس کو ذہن تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔والدین چاہے مشرق کے ہوں یا مغرب کے، اولاد کے لیے دنیا کا واحد مخلص رشتہ قرار دیے جاتے ہیں۔ مشرقی معاشرے میں تو خاص طور پر والدین فرشتوں کا دوسرا روپ سمجھے جاتے ہیں۔والدین کے جانبدارانہ رویے پر بات کرنا ایک شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت سے آنکھیں چرا لینے سے صورتحال بدل نہیں جاتی۔ بات کریں گے تو بات بنے گی۔ بات کریں گے تو آگہی کا سفر شروع ہوگا۔ہمارے یہاں والدین کو غلطیوں سے ماورا قرار دے کر عزت و توقیر کے اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا جاتا ہے لیکن اگر غلطی دیکھ کر بھی آنکھیں چرا لیں تو اس کو درست کرنے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہمارے اردگرد ایسی ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں، جہاں بہت سے سلمان والدین اور بن بھائیوں کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہو چکے ہیں، بہن بھائیوں کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے اپنی زندگی جینا بھول چکے ہیں۔اگر سلمان جیسے لوگ اپنی زندگی جینے کی چاہ کریں بھی، تو اپنوں کی سیاسی چالوں میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ایسی بھی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی کہ جب والدین کی انا نے ان کی اولاد کی زندگی میں زہر گھول دیا۔ ضروری تو نہیں کہ جو کیرئیر یا جو شریک حیات والدین کو پسند ہو، اولاد کا بھی وہی انتخاب ہو۔والدین کی پسندیدہ زندگی جھیلتے جھیلتے اولاد بیچاری ہانپ جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ صورتحال اس وقت بنتی ہے جب والدین اپنی ہی اولاد میں فرق کرتے ہیں۔ جو بیٹا پسندیدہ ہے اس کی بیوی کے لیے سب جائز ہے۔ جو اولاد منظور نظر ہے اس کے پاس گویا باقی بہن بھائیوں سے زیادتی کرنے کا لائسنس موجود ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو اولاد زیادہ خیال رکھتی ہے اسی پر سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین بچے پیدا کر کے بڑے بیٹے یا بیٹی پر سب چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔ جو بیٹا زیادہ محنتی ہے وہ نا چاہتے ہوئے بھی ساری عمر اپنے نکمے بھائیوں کا بوجھ ڈھونے کا پابند ہے۔آپ خود ہی اپنے اردگرد دیکھ لیجیے، اکثر گھروں میں ایک بیٹا ایسا ہوگا، جسے سب ڈرائیور کے طور پر استعمال کرتے ہوں گے وہ چاہے جتنا بھی تھکا ہوا ہو، بیمار ہو، یہ اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سب کو پک اینڈ ڈراپ دے۔لیکن اگر ان تمام ذمہ داریوں کو جھیلتے جھیلتے معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جائے تو چار لوگوں میں والدین اسی بیٹے کا تذکرہ ایک ناکام انسان کے طور پر کرتے ہیں۔دوسری طرف اگر ان لوگوں پر نگاہ دوڑائیں جنہوں نے معاشی دوڑ میں سبقت حاصل کی اور دیار غیر جا کر محنت کی۔ اپنے گھر والوں کو معاشی فکروں سے آزاد کر دیا۔ یہ الگ بات کہ وہ خود ان ممالک میں پیسہ کمانے کی غرض سے ہر طرح کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔ایک کمرے میں 40 لوگوں تک کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتے رہے لیکن ان کے والدین اور بہن بھائی پاکستان میں نوابوں کی طرح پیسہ خرچ کرتے رہے۔ساتھ ہی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ سونے کی کان اسی طرح چلتی رہے اور یہ خدشہ بھی لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کا کماؤ پوت دیار غیر سے واپس وطن آنے اور اپنی زندگی جینے کی کوشش نہ کرے۔یہ بھی عام ہے کہ بہنوں کے نام پر ایسے بھائیوں کا جی بھر کے استحصال کیا جاتا ہے۔ بہن کی شادی پر بے جا اخراجات اور اصراف کرتے ہوئے بیٹے کو جذباتی طور پر بلیک میل کیا جاتا ہے کہ ‘تمہاری ایک ہی بہن ہے، بے چاری کو ارمان نکالنے دو، دن ہی کتنے رہ گئے ہیں‘۔نتیجتاً وہ بچارہ آنے والے کئی سالوں تک ادھار تلے دب کر رہ جاتا ہے۔ یہی رویہ ان بڑی بیٹیوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے، جو کما کر گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ والدین ان کے مسائل سمجھنے کے بجائے ان کا بوجھ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ایسے لڑکے لڑکیوں کی شادی کے وقت گھر والے سوچتے ہیں کہ ان کی اپنی فیملی بن گئی اور ذمہ داریاں بڑھ گئیں تو پھر ہمارا بوجھ کون اٹھائے گا۔اس لیے اپنے ہی گھر والے ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ شادی کرنا ہی پڑے تو کئی طرح کی شاطرانہ چالیں چلی جاتی ہیں۔ کوئی ایسا شریک حیات تلاش کیا جائے جو ہماری مرضی کے مطابق اپنی زندگی جیئے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو جس کا بعد میں استحصال کیا جا سکے اور پھر ان کی اولاد کا بھی، گویا وہ غلام ابن غلام ہوں۔احساس ذمہ داری کے نام پر یہ بیچارے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتے چلے جاتے ہیں۔ چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھتے رکھتے بچپن کہیں کھو جاتا ہے۔بہنوں بھائیوں کی پڑھائی اور شادیوں میں جوانی کھو جاتی ہے۔ جب آدھی عمر گزر جاتی ہے تو والدین کی تیمارداری میں وقت صرف ہوتا ہے۔والدین کے حقوق اور ان کا احترام اپنی جگہ لیکن اولاد کا استحصال کرنے کا حق کسی صورت نہیں دیا جا سکتا۔ جب تک ان معاشرتی رویوں پر بات نہیں ہو گی ان کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان مسائل پر کھل کر بحث کریں۔ والدین کو اس بات کا ادراک ہو کہ کہیں وہ خود ہی اپنی اولاد کی راہ تو کھوٹی نہیں کر رہے۔

Related Articles