لاپرواہی نہ برتیں، اومیکرون کافی مہلک ہے، ماہرین

نیویارک،جنوری۔اومیکرون پر لیبارٹریز میں کیے جانے والے نئے مطالعاتی جائزون سے پتہ چلا ہے کہ کرونا وائرس کی یہ نئی جینیاتی قسم پھیپھڑوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتی جتنا اس سے پہلے ڈیلٹا ویرینٹ سے پہنچ رہا تھا۔اس کے علاوہ اومیکرون کے باعث اسپتال میں علاج کے لیے داخل ہونے والوں میں ایسے افراد کی تعداد کم ہے جنہیں کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگ چکی ہے۔ اسی طرح ویکسین شدہ افراد میں اموات کی تعداد بھی اس سے پہلے کی جینیاتی اقسام کے مقابلے میں کم ہے۔لیکن اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اومیکرون امریکہ میں اب بھی روزانہ اوسطاً 1200 افراد کی جانیں لے رہا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال جولائی اور اگست کے دوران کرونا وائرس کی دوسری لہر کے عروج کے دنوں کے مساوی ہے۔یونیورسٹی آف گلاسگو کے سینٹر فار وائرس ریسرچ کے ایک سینئر لیکچرر جو گروو کہتے ہیں کہ، "اومیکرون، ڈیلٹا کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ڈیلٹا بہت مہلک تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، "اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ یہ ویرینٹ نزلے زکام جیسا ہے۔ یہ اب بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔”ان کے علاوہ دیگر ماہرین بھی یہ انتباہ کرتے ہیں کہ اومیکرون بہت تیزی سے پھیلنے والی وبا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس کم خطرناک ہونے کے باوجود بھی بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو جو عمر رسیدہ ہیں یا جنہیں پہلے سے ہی طبی مسائل کا سامنا ہے۔
اومیکرون پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر نہیں کرتا:جانوروں اور لیبارٹری میں کیے جانے والے نئے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اومیکرون پھیپھڑوں کو اتنا زیادہ متاثر نہیں کرتا جتنا کہ اس سے قبل کی کرونا وائرس کی اقسام نقصان پہنچاتی تھیں۔ اومیکرون میں مبتلا ہونے والے مریضوں کے پھیپھڑوں میں زیادہ سوزش نہیں دیکھی گئی۔تاہم اومیکرون ناک اور گلے کو آسانی سے متاثر کرتا ہے۔ گروو کہتے ہیں کہ ناک اور گلے کو اپنی لپیٹ میں لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ کیا ہے، کیونکہ جب سانس خارج ہوتی ہے تو اس کے ساتھ وائرس بھی آس پاس کی فضا میں پھیل جاتا ہے۔گرو و کہتے ہیں کہ، "کیونکہ اس کی وجہ سے زیادہ کھانسی یا چھیکیں آتی ہیں، اس لیے یہ زیادہ آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم، یہ میرا قیاس ہے۔”اومیکرون کے متعلق بات کرتے ہوئے واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر مائیک ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کے نتائج امید افزا ہیں، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جانوروں پر تجربات کے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ انسانوں سے بھی ویسے ہی نتائج نکلیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اومیکرون کم شدت کا وائرس ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ٹھیک ہو، لیکن ہم ابھی تک پوری طرح نہیں جانتیکہ انسانوں میں اس کی شدت کم ہے۔جنوبی افریقہ میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملک میں وائرس کی مختلف اقسام کے مقابلے میں اومیکرون میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں علامات شدید نہیں تھیں۔برطانیہ میں صحت کے حکام کا بھی یہی مشاہدہ ہے۔لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مرض کی شدت کم ہونے کی وجہ وائرس کا ہلکا ہونا ہے یا یہ کہ لوگوں میں اس کے مقابلے کی قوت بہتر ہے۔اسی طرح کینیڈا کے صوبے انٹاریو میں وائرس پر ہونے والے ایک ابتدائی مطالعے سے معلوم ہوا کہ اومیکرون میں مبتلا ہونے کے بعد ان افراد میں اسپتال میں داخل ہونے یا مرنے کا امکان 60 فی صد کم تھا جنہیں ویکسین لگ چکی تھی۔صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت برقرار رہتی ہے کیونکہ ویکسین بیماری کی شدت میں کمی کر سکتی ہے لیکن اومیکرون میں مبتلا ہونے کا خطرہ بدستور باقی رہتا ہے۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہو تو وائرس کی شدت کم ہونے کا فائدہ زائل ہو جاتا ہے۔
اسپتال ایک بار پھر سے بھرنے لگے:امریکہ کے کئی علاقوں میں کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والے مریضوں سے اسپتال بھرنے شروع ہو گئے ہیں اور طبی عملے پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس سلسلے میں حاصل ہونے والے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسپتال میں داخل ہونے والے ان مریضوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہے جنہوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگوائی۔مثال کے طور پر،نیویارک شہر میں، جہاں کووڈ-19 کے کیسز ایک بار پھر تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اسپتال میں داخل ہونے والے ویکسین شدہ مریضوں کے مقابلے میں ان مریضوں کی تعداد 30 گنا زیادہ ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اسپتال جانے والے مریضوں میں 65 سال سے زیادہ عمر والوں کی شرح نمایاں طور پر بلند ہے۔یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل برانچ کے ایک ماہر وائرالوجسٹ ونیت میناچری کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ ویرینٹ پچھلی لہروں کے مقابلے میں کم شدید ہے، خاص طور پر اگر آپ نے ویکسین لگوا رکھی ہو۔ جب کہ دوسری جانب یہ ویرینٹ ویکسین نہ لگوانے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے جتنا مارچ 2020 میں ظاہر ہونے والا وائرس تھا۔

Related Articles