شادی کی عمر بڑھا کر 21 کرنا لڑکیوں کی بہتری کے لیے ہے: جیا جیٹلی

نئی دہلی، دسمبر۔ لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی سفارش کرنے والی ٹاسک کمیٹی کی چیئرپرسن کا خیال ہے کہ یہ تجویز لڑکیوں کی بہتری کے لیے ہے اور اس کا مقصد سیاسی فائدہ یا مذہبی معاملات میں قطعاً کوئی مداخلت نہیں ہے۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو ان سفارشات پر عمل درآمد یا ترمیم کا حق حاصل ہے۔ٹاسک کمیٹی کی رپورٹ کو مرکزی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور اس سے متعلق ایک بل تیار کیا گیا ہے۔ اسے پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ رپورٹ پر کابینہ کی منظوری کے بعد کچھ سیاسی اور کئی مذہبی تنظیموں نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔15 اگست 2020 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر میں تبدیلی کے لیے قانون بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد جنوری میں محترمہ جیٹلی کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی میں محترمہ جیٹلی کے علاوہ نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر، احمد آباد کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر دیپتی شاہ اور وسودھا کامت کے علاوہ کئی قانونی اور طبی ماہرین بھی شامل تھے۔یو این آئی سے خصوصی بات چیت کے دوران محترمہ جیٹلی نے کہاکہ ہم نے اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک کے قوانین کا بھی مطالعہ کیا، جن میں ترقی پذیر، ترقی یافتہ، پسماندہ اور کئی مغربی ممالک شامل ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی عمر برابر ہے اور بیشتر ممالک میں 18 سال سے اوپر اور کئی ممالک میں 21 سال ہے۔ اس سے پہلے 1978 میں مرارجی دیسائی حکومت کے دوران شاردا ایکٹ میں تبدیلی کرکیلڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر 18 سال کر دی گئی تھی۔ 1929 میں بنائے گئے شاردا قانون میں لڑکوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال اور لڑکیوں کے لیے 14 سال مقرر کی گئی تھی۔ اب 40 سال بعد ملک اور معاشرے کے حالات اور ضروریات بدل چکی ہیں۔محترمہ جیٹلی نے کہاکہ جب ہم صنفی مساوات کی بات کرتے ہیں تو یہ دلیل دینا مضحکہ خیز ہے کہ لڑکیاں 18 سال کی عمر میں جسمانی طور پر بالغ ہوجاتی ہیں۔ ہم نے یہ رپورٹ معاشرے کے تمام طبقوں، دانشوروں اور رضاکار تنظیموں کے علاوہ دنیا بھر کے ماہرین کے ساتھ اس مسئلے پر قوانین کا مطالعہ کرنے کے بعد تیار کی ہے۔ سب کو سننے کا پورا موقع دیا گیا۔ کچھ لوگوں یا تنظیموں نے اپنے اعتراضات بھی درج کرائے ہیں لیکن ہم نے کمیٹی کے تمام اراکین اور ماہرین سے مشاورت کے بعد یہ رپورٹ تیار کی ہے۔انہوں نے کہا کہ میری رائے ہے کہ جب ووٹ ڈالنے کی عمر ایک ہی رکھی گئی ہے تو پھر شادی کے لیے فرق کیوں؟ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکیاں صرف گھر میں رہنے اور بچے پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں جب کہ یہ وقت انہیں مساوی حقوق اور مواقع دینے کا ہوتا ہے۔18 سال کی عمر میں عوامی نمائندے یا حکومت کا انتخاب کرنے کے بعد شادی کے لیے ساتھی کے انتخاب کے لیے 21 سال کی عمر بڑھانے کے سوال پر محترمہ جیٹلی نے کہاکہ یہ سچ ہے کہ ہمیں ووٹ کا حق 18 سال کی عمر میں ملا۔ لیکن اگر کوئی غلطی ہو جائے تو پانچ سال میں اصلاح کا امکان ہے، جب کہ ہمارے ہاں شادی کو زندگی بھر کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے اور اس معاملے کا تعلق لڑکی کے لیے ’مواقع‘ زیادہ ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا رپورٹ کے بہانے حکومت شادی سے متعلق مذہبی قوانین میں مداخلت یا یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کے بہانے تو نہیں ڈھونڈ رہی؟،محترمہ جیٹلی نے کہا کہ حکومت نے نہ تو اس میں کوئی مداخلت کی اور نہ ہی کوئی منشا ظاہر کی ہے۔ پھر بھی میرا ماننا ہے کہ اگر یکساں سول کوڈ بھی نافذ ہو جائے تو کیا پریشانی ہے۔محترمہ جیٹلی نے سیاست دانوں کے عصمت دری پر دیے گئے بیان یا پھر یا سیاست میں خواتین کی معمولی موجودگی پرمحترمہ جیٹلی نے کہاکہ ہمیں اس مردانہ ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ خواتین کا سیاست میں حصہ لینا کتنا مشکل ہے۔ خواتین ریزرویشن بل کے سلسلے میں بھی سیاسی جماعتوں میں اندرونی اختلافات ہیں، لیکن اب اسے آگے لے جانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

Related Articles