چین: والد نے اپنے مرتے ہوئے بیٹے کے لاعلاج مرض کی دوا خود بنا لی

کنمنگ ،نومبر۔اولاد کا پیدائشی طور کسی بیماری میں مبتلا ہونا والدین کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہ اپنی اولاد کی زندگی کے خاطر ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔اگر کسی کے والدین کو یہ بات پتا چلے کہ ان کی اولاد ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہے اور اس کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے تو وہ اسے صحت مند زندگی دینے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں۔یہ بات تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کرونا وبا کے دوران دنیا بھر میں جہاں لوگوں کی نظامِ زندگی متاثر ہوئی ہے وہیں علاج و معالجے کی سہولیات میں بھی خلل پیدا ہوا ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محدود مریض ڈاکٹرز کے پاس جانے سے قاصر تھے جس کے سبب علاج کے لیے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ان تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے چین کے شہر کنمنگ میں مقیم ڑہو وئے اپنی مرتی ہوئی اولاد کو زندگی بچانے کے لیے خود میدان میں اترے ہیں۔ان کا دو سالہ بیٹا ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کی دوا چین میں میسر نہیں ہے، اور ان کے بیٹے کے پاس صرف چند ماہ کا ہی وقت ہے۔تیس سالہ ڑہو کا بیٹا ہاؤیانگ مینکس سینڈروم میں مبتلا ہے۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں انسانی جسم میں موجود کوپر کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔ کوپر دماغ کی نشونما کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔اس بیماری میں مبتلا کوئی بھی شخص تین برس سے زیادہ عرصہ نہیں جی پاتا۔اس بیماری میں مبتلا کوئی بھی شخص بمشکل تین برس سے زیادہ عرصہ نہیں جی پاتا۔اس بیماری میں مبتلا کوئی بھی شخص بمشکل تین برس سے زیادہ عرصہ نہیں جی پاتا۔کرونا کی وجہ سے چین کی سرحدیں بند ہیں اور ڑہو اپنے ننھے بچے کے علاج کے لیے اسے ملک سے باہر بھی نہیں لے جا سکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے خود دوا بنانے کی ٹھان لی۔ڑہو وئے نے اپنے گھر میں ہی والد کے جم میں ایک لیبارٹری کی بنیاد رکھی جس میں انہوں اپنے بیٹے کی لاعلاج بیماری کے لیے دوا بنانے کا عمل شروع کیا۔خبروں کے مطابق ڑہو نے بتایا کہ "میرے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا کہ آخر مجھے یہ کرنا چاہیے یا نہیں، مجھے یہ کرنا ہی تھا۔”ڑہو کا کہنا ہے ان کا بیٹا بولنے یا حرکت کرنے کے قابل نہیں ہے لیکن اس کے اندر ایک جان ہے جو جذبات اور احساسات محسوس کر سکتی ہے۔انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور اس کے علاج کے لیے ایک ہی واحد دوا ہے جو بیماری پر قابو پانے میں مدد فراہم کر سکتی ہے اور یہ دوا چین میں دستیاب ہی نہیں ہے۔پھر انہوں نے خود اس دوا کو بنانے کے لیے تحقیق شروع کی۔ڑہو کے بقول ان کے دوست احباب اور رشتہ دار اس فیصلے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ یہ نا ممکن ہے۔
دوا خود تیار کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا :مینکس سینڈروم سے متعلق زیادہ تر معلومات انگریزی زبان میں تھی اور ڑہو نے لیبارٹری بنانے سے قبل ان معلومات کو سمجھنے کے لیے ٹرانسلیٹنگ سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے اسے سمجھا۔اب ڑہو اپنے بیمار بیٹے کو روزانہ گھر میں تیار کی جانے والی دوا کی خوراک دیتے ہیں جو ان کے بیٹے کے جسم میں کوپر کی وہ مقدار فراہم کرتی ہے جو اس کے جسم میں موجود نہیں۔ڑہو کا دعویٰ ہے کہ بیٹے کا علاج شروع کرنے کے دو ہفتوں بعد ہی اس کے خون کے چند ٹیسٹ کے نتائج نارمل آئے۔ایک اندازے کے مطابق یہ بیماری عالمی سطح پرایک لاکھ بچوں میں سے صرف ایک بچے کو ہی لاحق ہوتی ہے۔ جب کہ یہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ڑہو کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں ان کی اس دوا میں بہت کم دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں اور کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اس دوا کی مارکیٹ میں طلب نہیں ہے اور اسے بہت محدود طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر حالات معمول کے مطابق ہوتے تو وہ دوسرے ملک میں جا کر وہاں کے اسپیشلسٹ سینٹرز سے معلومات حاصل کر کے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے دوا تیار کرتے لیکن کرونا کی وجہ سے چین سے باہر نہیں جا سکے جہاں وبا کے آغاز سے ہی سرحدیں بند ہیں۔ان کے مطابق دوا خود تیار کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ڑہو نے چھ ہفتے تجربہ کرنے کے بعد پہلی دوا تیار کی تھی جسے انہوں نے سب سے پہلے خرگوش پر تجربہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے اسے خود پر بھی تجربہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ دوا کی خوراک دینے کے بعد خرگوش بالکل ٹھیک تھے جب کہ انہیں بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ دوا اپنے بیٹے کو دینے کا فیصلہ کیا۔فرانس کی ’ٹورز یونیورسٹی اسپتال‘ کی پروفیسر اور مینکس بیماری کی ماہر انیک توتین کا کہنا ہے کہ کاپر ٹریٹمنٹ صرف کچھ غیر معمولی جین کے خلاف ہی کارآمد ثابت ہوتی ہے وہ بھی اس وقت جب یہ مریض کو بہت جلد یا پیدائش کے پہلے تین ہفتوں میں دی جائے۔انہوں نے بتایا کہ اس طریقہ علاج کے بعد بیماری سے مکمل طور پر صحت یابی نہیں ہوتی بلکہ صرف علامات میں معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔اگر چہ ڑہو بھی یہ بات مانتے ہیں کہ اس طریقہ علاج سے بیماری میں صرف معمولی کمی ہوتی ہے۔تیس سالہ ڑہو کی بیٹے کے علاج کے لیے کاوشوں نے عالمی بائیو ٹیک لیب ویکٹر بلڈر کو بھی اس بیماری کے علاج کے لیے جین تھراپی پر تحقیق شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ویکٹر لیب کے چیف سائنس دان بروس لان کا کہنا ہے کہ وہ ڑہو کے خاندان کو جاننے کے بعد ان سے متاثر ہوئے۔اب ان کی لیبارٹری میں آئندہ چند ماہ کے اندر اس بیماری کے علاج کے لیے جانوروں پر کلینکل ٹرائلز اور تجربات کا آغاز کیا جائے گا۔دوسری جانب چین کی پیکنگ یونیورسٹی کے میڈیکل جینیٹکس ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر ہوانگ یو کا کہنا ہے کہ بحیثیت ایک ڈاکٹر انہیں ڑہو کے بارے میں جان کر بے حد شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ڈاکٹر ہوانگ یو کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہوئے ہم اپنے میڈیکل سسٹم کو بہتر بنا کر ڑہو کی طرح دیگر خاندانوں کی بہتر انداز میں مدد کر سکیں گے۔

Related Articles