برطانیہ میں کورونا کی صورتحال یورپی ممالک کی طرح تشویشناک نہیں لیکن موسم سرما میں بڑھنے کا خدشہ

لندن ،نومبر۔ برطانیہ میں کورونا کی صورتحال یورپی ممالک کی طرح تشویشناک نہیں ہے لیکن موسم سرما میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ اس وقت جبکہ یورپی ممالک میں کورونا کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، برطانیہ کی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا سبب برطانیہ میں لوگوں کی عادات اور لوگوں کو حاصل احتیاطی سہولتیں ہیں۔برطانیہ میں دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں کورونا کی شرح بہت زیادہ تھی اور اس اعتبار سے ہلاکتیں بھی بہت زیادہ تھیں لیکن حال میں صورت حال تبدیل ہورہی ہے اور کورونا کے مریضوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ ہی ہلاکتوں کی شرح بھی کم ہو رہی ہے۔ تاہم وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ تساہل اور غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پورے یورپ میں انفیکشنز کے اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یورپ کے مختلف ممالک میں طوفان کے بادل چھاتے نظر آرہے ہیں، آج یہ ثابت ہورہا ہے کہ لوگوں کو فوری طورپر بوسٹر لگوا لینا چاہئے۔ اگر ہم نے فوری طورپر ایسا نہ کیا تو یورپ کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی کورونا کے انفیکشن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یورپ میں کورونا کی شرح میں تیزی سے اضافے کے بعد نیدرلینڈ میں کورونا کے متاثرین کی شرح برطانیہ سے تجاوز کرچکی ہے اور نیدرلینڈ میں جزوی لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے دیگر یورپی ممالک سے آمدورفت کیلئے 3 ہفتے کیلئے پابندی عائد کردی گئی ہے، جرمنی میں اگرچہ یہ شرح کچھ کم ہے لیکن اس کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر فرانکوئس کا کہنا ہے کہ چند ہفتے پیشتر یورپ میں اس تیزی کے ساتھ کورونا میں اضافے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس کی شرح میں اضافے کے 2 بنیادی اسباب ہیں، انسانی رویہ اور آبادی کو احتیاطی انجکشن لگانے کی شرح ہے۔ برطانیہ میں ویکسین لگوانے والوں کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے مرض کیخلاف اینٹی باڈی رکھنے والی آبادی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ قومی شماریات دفتر کے اندازے کے مطابق 6 نومبر کو کئے جانے والے کورونا ٹیسٹ کے مطابق برطانیہ کے کم وبیش 1.1 ملین افراد یعنی کل آبادی کے 1.7 فیصد کے مساوی کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو تھا جو کہ اس سے قبل والے ہفتے کے مقابلے میں2 فیصد کم تھا۔ اواین ایس کی سارہ کرافٹس کا کہنا ہے کہ بوسٹر ڈوز کے اثرات کا بھی قریب سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بوسٹر ڈوز سے خون میں اینٹی باڈیز کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے، تاہم ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بوسٹر ڈوز سے 80 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو بھی اضافی تحفظ حاصل ہوگا یانہیں؟۔

Related Articles