سعودی عرب میں ہتھیار چلانے کی خاتون ٹرینر اولمپک میں حصہ لینے کی خواہشمند

ریاض،نومبر۔سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے میں ایک خاتون ’ٹاپ گن‘ فائرنگ رینج کی ٹرینر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ریاض میں آتشیں ہتھیار کے استعمال کی ٹریننگ میں اب زیادہ سے زیادہ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔سعودی عرب کے پدرسری اور قدامت پسند معاشرے میں یوں تو بہت سے شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی شمولیت سے متعلق انقلابی تبدیلیاں توجہ کا مرکز بن ہی رہی ہیں تاہم اب ایک ایسے شعبے میں بھی ایک باہمت خاتون نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے، جسے اب تک اس معاشرے میں خالصتاً مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا تھا۔
فائر آرمز شوٹنگ کی خاتون ٹرینر:مونا الخریص کی عمر 36 سال ہے۔ انہیں بچپن ہی سے بندوقوں میں گہری دلچسپی تھی اور انہیں چلانے کا شوق بھی بہت تھا۔ ان کے والد انہیں بہت کم عمری سے ہی اپنے ساتھ شکار پر لے جایا کرتے تھے اور انہوں نے خود اپنی بیٹی مونا کو بندوق چلانا سکھایا تھا۔ پانچ سال قبل مونا کا یہ شوق ان کے پیشے میں تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے اپنے ملک کے اندر اور بیرون ملک رائفل شوٹنگ کی ٹریننگ حاصل کی تاکہ وہ ایک دن بندوق اور رائفل چلانے ‘ کی سند یافتہ ٹرینر کی حیثیت سے جانی جانے لگیں۔اب وہ ریاض میں خود خواتین کو رائفل شوٹنگ کی تربیت دے رہی ہیں اور روز بروز سعودی خواتین کی ان کے ٹریننگ سینٹر میں شمولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ مونا الخریص کہتی ہیں، میں اپنے مشغلے کو عملی جامہ پہنانے اور ایک کوچ اور سیفٹی آفیسر بننے میں کامیاب ہونے پر بہت خوش ہوں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، مجھے امید ہے کہ میں سعودی لڑکیوں کے ساتھ اپنا تجربہ بانٹ سکوں گی اور انہیں اس مشکل شعبے یا میدان میں داخل ہونے کی ترغیب دے سکوں گی۔ کیونکہ یہ شعبہ پہلے محض مردوں کے لیے تھا۔‘‘
فیلکنری اور ہنٹنگ شو:سعودی عرب میں ہر سال باز اور شکروں کو شکار کے لیے سدھانے کا ایک شو منعقد ہوتا ہے۔ یہ دراصل شکار کے لیے استعمال ہونے والے مخصوص ہتھیاروں کی ایک اہم نمائش ہوتی ہے، جو ریاض میں منعقد ہوتی ہے۔ اس بار کے سعودی فیلکنری اینڈ ہنٹنگ شو‘ کے نمائش کنندگان میں سے ایک مونا الخریص بھی تھیں اور شکار میں مہارت رکھنے والے مینوفیکچررز کی مصنوعات کی نمائش کر رہی تھیں۔ نمائش کنندگان نے نیز اس نمائش میں نیم خود کار ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ شکار کے دیگر سامان بھی نمائش کے لیے رکھے۔ سعودی عرب کی اس نمائش میں بندوق کا لائسنس رکھنے والے افراد ہی نمائش میں ہتھیار خرید سکتے تھے۔
سعودی عرب میں بڑی تبدیلی:انتہائی قدامت پسند، مردوں کی اجارہ داری والی اس عرب بادشاہت میں خواتین کے ساتھ رویے اور معاشرے میں ان کے مقام اور ان کی شمولیت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اس ریاست میں اب خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو روزگار کی منڈی میں بہتر مستقبل نظر آ رہا ہے اور وہ اپنے ملک کی افرادی قوت کا حصہ بن رہی ہیں اور مختلف پیشوں میں ملازمتیں حاصل کر رہی ہیں۔ مونا الخروص کو تاہم ابتدائی مراحل میں مردوں کے تسلط اور اجارہ داری والے ماحول میں کام کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مشکلات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں، مجھے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ خود خواتین کی طرف سے کی جانے والی تنقید تھی۔ یہ میرے لیے نہایت تعجب کی بات تھی کیونکہ میں مردوں کی طرف سے اس تنقید کی توقع کر رہی تھی۔‘‘جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ سعودی لڑکیاں اور خواتین بندوق چلانے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں ویسے ویسے مونا کی امیدیں بڑھ رہی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ ایک دن خواتین کی سوچ بدلے گی اور وہ اپنی ہم وطن خواتین کو متحرک کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ مونا کہتی ہیں، میرا مقصد یا ہدف یہ ہے کہ میں ایک روز اولمپک مقابلوں میں حصہ لے سکوں۔‘‘

Related Articles