امریکہ کے نئے صدر: جوزف بائیڈن

مفتی محمد قاسم اوجھاری
کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، ہر جمہوری ملک میں نظام سیاست نظم ونسق عامہ اور انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہے، ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے 1777ء میں وجود میں آیا، امریکہ میں صدارتی جمہوریت ہے یعنی مملکت کا ایک صدر ہوتا ہے جس کو عوام یا جمہوریہ بالواسطہ منتخب کرتے ہیں، سارے انتظامی اختیارات صدر کو حاصل ہیں وہ اپنی پالیسیوں کے لیے مقننہ یا کانگریس کے روبرو جواب دہ اور ذمہ دار بھی نہیں ہے۔ امریکی دستور کی رو سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی انتظامیہ کا حاکم اعلی صدر ہے، اس فرد واحد کو بے شمار اور وسیع انتظامی اختیارات حاصل ہیں، اختیارات کے اعتبار سے اسے دنیا کا سب سے بڑا با اختیار حاکم کہا جاتا ہے۔ لارڈ برائس نے اس عہدے کو دنیا کا سب سے بڑا عہدہ قرار دیا ہے۔
امریکی دستور کی رو سے صدر کا انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے اسے ایک انتخابی کالج چار سال کے لیے منتخب کرتا ہے، انتخابی کالج کے ممبروں کی تعداد کانگریس کے دونوں ایوانوں کی مجموعی تعداد کے برابر ہوتی ہے، ہر ریاست سے سنیٹ اور ایوان نمائندگان کے ممبروں کی تعداد کے برابر صدارتی انتخاب کنندگان عام ووٹوں سے چنے جاتے ہیں، پھر یہ منتخب ممبران صدر کا انتخاب کرتے ہیں، انتخابی کالج کے ممبروں کی تعداد اس وقت 539 ہے، کامیابی کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ ضروری ہیں، ہر چوتھے سال نومبر کے شروع میں یہ انتخاب کنندگان ہر ریاست میں منتخب کیے جاتے ہیں، دسمبر کے مہینے میں منتخب ممبران ریاست کے دارالخلافہ میں جمع ہوکر صدر کو منتخب کرتے ہیں، اس کے بعد ہر ریاست کی طرف سے امریکی ایوان بالا کے صدر کو اس الیکشن کا سرٹیفکیٹ بھیجا جاتا ہے، جنوری کے شروع میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہوتا ہے اس میں ووٹ گنے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ ووٹ پانے والے امیدوار کو صدر منتخب قرار دیا جاتا ہے، نیا صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف لیتا ہے اور اپنے عہدے کا چارج سنبھالتا ہے، اگر کوئی امیدوار مقررہ ووٹ حاصل نہ کر سکے تو ایوان نمائندگان سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے نمائندے کو منتخب کر لیتے ہیں، اگر یہ کوشش بھی ناکام رہے تو پھر نائب صدر، صدر کا عہدہ سنبھال لیتا ہے۔
اگرچہ امریکی دستور نے بالواسطہ انتخاب کا نظام رکھا ہے لیکن عملا صدر کا انتخاب بلا واسطہ ہوتا ہے۔ صدارتی انتخابات سے پہلے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سیاسی پارٹیاں اپنا کنونشن منعقد کرتی ہیں اور اس عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کرتی ہیں، ہر ریاست صدر کا انتخاب کرنے والی جماعت یعنی انتخابی کالج کے لیے اپنے نمائندوں کو نامزد کرتی ہے اور ووٹر اپنی مرضی کے مطابق ان نمائندوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ صدارتی انتخاب کنندگان کے انتخاب میں کسی پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صدارت کے لیے اس پارٹی کے امیدوار کو اس ریاست سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ہر ریاست میں انتخابات اور کانگریس میں ووٹوں کا شمار محض دستوری رسم کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ورنہ عملاً صدر کا انتخاب صدارتی انتخاب کنندگان کے انتخاب کے وقت ہی ہو جاتا ہے۔
امریکہ میں دو پارٹی سسٹم رائج ہے۔ ایک ڈیموکریٹک پارٹی ہے اور دوسری ری پبلیکن پارٹی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے پروگرام اور پالیسی تقریبا ایک ہی جیسے ہیں، دونوں کی خارجہ پالیسی اور معاشی پروگرام میں بھی کوئی زیادہ اصولی فرق نہیں ہے۔ البتہ امریکی سیاسی پارٹیوں پر معاشی مفاد کا اثر پڑتا ہے۔ مثلا صنعتی مالی اور تجارتی حلقے ہمیشہ ری پبلیکن پارٹی کی تائید کرتے ہیں۔ کسان اور زراعت پیشہ آبادی رکھنے والی ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کی تائید کرتی ہیں۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی سے تھے اور امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی سے ہیں۔ اس سے پہلے دو مرتبہ لگاتار صدر رہنے والے براک اوباما بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے تھے۔
امریکہ کا حالیہ الیکشن 2020ء بڑا دلچسپ اور غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے، ایک طرف ری پبلکن پارٹی سے ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کے لیے پرعزم تھے دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے لمبا سیاسی تجربہ رکھنے والے جو بائیڈن صدر بننے کی دوڑ میں تھے۔ زبردست سیاسی گہما گہمی اور انتخابات کے بعد نتائج جو بائیڈن کے حق میں آئے۔ جو بائیڈن نے مطلوبہ 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرلیے اور وہ امریکہ کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ جو بائیڈن امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر اسکرینٹن میں 1942ء میں پیدا ہوئے۔ لیکن جب ان کی عمر صرف دس برس تھی تو ان کا گھرانہ ریاست ڈیلاویئر منتقل ہو گیا۔ بائیڈن نے ڈیلاویئر یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور پھر قانون کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے سیاست کا رخ کرنے سے قبل بطور وکیل بھی کام کیا ہے۔ وہ ماہر قانون، سیاستدان اور وکیل ہیں۔
امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن اپنے سیاسی کیریئر کی ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں جو تقریبا نصف صدی پر محیط ہے۔ بائیڈن کا سیاسی سفر 1972ء میں امریکی سینیٹ کا رکن منتخب ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 27 برس تھی۔ اس طرح وہ امریکا کی تاریخ میں چھٹے کم عمر ترین سینیٹر بن گئے۔ کرسی صدارت تک پہنچنے کی بائیڈن کی خواہش بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ 1988ء میں پہلی مرتبہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد ہوئے تھے۔ اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے ایک بار پھر خود کو صدارتی امیدوار کے لیے نامزد کیا مگر جلد ہی وہ صدارتی انتخابات کی دوڑ سے دست بردار ہو گئے۔ اس کے بعد اوباما نے انہیں اپنے نائب کے عہدے کی پیش کش کی اور وہ نائب صدر منتخب ہوئے جس کی بنا پر انہیں سینیٹ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ براک اوباما کے زمانے میں 2009ء سے 2017ء تک جو بائیڈن دو مرتبہ نائب صدر رہے ہیں۔
براک اوباما کے ساتھ بائیڈن کا مضبوط تعلق 2008ء میں ساتھ کام کرنے کے وقت سے لے کر اب تک واضح ہے۔ اگرچہ اوباما نے 2020ء میں تمہیدی انتخابات میں کامیابی سے قبل بائیڈن کی حمایت کا اعلان نہیں کیا تاہم دونوں کے درمیان گہرے روابط کے نتیجے میں بائیڈن کو اقلیتوں بالخصوص سیاہ فاموں کے بیچ بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
بائیڈن اپنے حریف ری پبلکن پارٹی کے ارکان کے ساتھ اپنی غیر مخاصمانہ قربت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال آنجہانی ری پبلکن سینیٹر جان میک کین کے ساتھ بائیڈن کا قریبی تعلق ہے۔ مک کین 2008ء میں صدارتی انتخابات میں اوباما کے حریف تھے تاہم اس مسابقت اور اختلاف رائے نے بائیڈن اور مک کین کے تعلق پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نے جیت حاصل کرنے کے بعد اپنے اولین خطاب میں کہا ہے کہ مخالفین کو دشمن کی طرح نہ دیکھیں، وہ امریکی ہیں، امریکیوں کی طرح دیکھیں، یہ وقت نسل پرستی کا خاتمہ کرنے کی جنگ کا ہے، لوگوں کو تقسیم نہیں، متحد کرنا ہے۔ نیز انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ وہ تمام امریکیوں کے صدر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ امریکیوں خصوصا اقلیتوں کی امیدوں پر کتنا کھرا اترتے ہیں اور ان کی صدارت میں امریکہ کس سمت جائے گا اور عالمی سطح پر ان کی صدارت کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

Related Articles