کرونا وائرس: امریکہ کا نئے سفری نظام پر غور

کارکنوں کی لازمی ویکسی نیشن اور اسکول کھولنے کی کوشش

واشنگٹن،ستمبر-گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری مہلک کرونا وائرس نے دنیا بھر میں ہر شعبے کو متاثرکیا ہے۔ جانز ہاپکنز کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک دنیا بھر میں 22 کروڑ 66 لاکھ سے زیادہ افراد اس وبا میں مبتلا ہو چکے ہیں، جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 46 لاکھ 63 ہزار سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں اب تک ویکسین کی 5 ارب 80 لاکھ سے زیادہ خوراکیں دی جا چکی ہیں اور دنیا بھر میں حکومتیں محتاط انداز میں زندگی کے معمولات بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ جن میں سے چند ایک کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔آمد و رفت کی بحالی کے لیے امریکہ کا نئے سفری نظام پر غوروائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار نے بدھ کو کہا کہ امریکہ "بین الاقوامی سفر کے لیے ایک نیا نظام” تیار کر رہا ہے جس میں یہ بھی معلومات بھی شامل بھی ہوں گی کہ اس دوران مسافروں کا کس کس سے رابطہ ہوا۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ملک میں داخلے کے لیے زیادہ تر ملکوں پر پابندیاں نافذ ہیں۔وائٹ ہاؤس میں کرونا وائرس پر کنٹرول سے متعلق امور کے کوآرڈینیٹر جیف زینٹس نے یو ایس ٹریول اینڈ ٹورزم ایڈوائزری بورڈ کو بتایا کہ انتظامیہ فوری طور پر کسی بھی سفری پابندی میں نرمی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔خبروں کے مطابق اگست کے اوائل میں خبر دی تھی کہ وائٹ ہاؤس ملک میں داخلے سے متعلق ویکسین کے تقاضوں پر کام کر رہا ہے جس سے تقریباً تمام غیر ملکی سیاحوں کو مدد مل سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس سے پہلے یہ کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے ویکسین لازمی بنانے پر غور کر رہا ہے۔زینٹس نے بدھ کو کہا کہ بین الاقوامی سفر کے لیے نیا نظام زیادہ محفوظ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ آنے والے غیر ملکی شہریوں کے لیے ویکسینیشن کی ضرورت پر غور کر رہے ہیں۔سیکرٹری تجارت جینا ریمونڈو نے اسی میٹنگ میں کہا کہ کووڈ-19 کیسز میں اضافہ بین الاقوامی سفری پابندیوں کو ختم کرنے سے روک رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، "ہم میٹرکس پر مبنی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل اپنے ملک میں کرونا کی صورت حال کو بہتر بنانا ہو گا جس کے لیے "اس سے پہلے کہ ہم ایسا کر سکیں، ہمیں ملکی حالات کو بہتر طریقے سے سنبھالنا ہو گا ، جس کے لیے ہر ایک کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہے۔انڈسٹری کے کچھ عہدیداروں کو خدشہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ مہینوں یا ممکنہ طور پر 2022 تک سفری پابندیاں نہیں اٹھا سکے گی۔امریکی سفری پابندیاں پہلی بار چین پر جنوری 2020 میں عائد کی گئیں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹا جا سکے جس کے بعد اس فہرست میں بہت سے دوسرے ممالک کو شامل کیا گیا۔زیئنٹس نے کہا کہ انتظامیہ "جتنی جلدی ہو سکے سفری پابندیاں ختم کرنا چاہتی ہے۔”زینٹس نے کہا کہ نئے نظام میں امریکہ آنے والے مسافروں سے رابطہ ٹریسنگ ڈیٹا اکٹھا کرنا شامل ہو گا، تاکہ بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کووڈ-19 میں مبتلا ہونے والے مسافروں سے رابطہ کر سکیں۔امریکہ میں اس وقت بیشتر ایسے غیر امریکی شہریوں پر پابندیاں عائد ہیں جو گزشتہ 14 دن برطانیہ اور یورپی ملکوں میں گزار چکے ہوں۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سے ملکوں کے شہریوں کی آمد پر بھی پابندی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں کئی ایسے ممالک شامل نہیں ہیں جہاں کووڈ کے انفکشن کی شرح زیادہ ہے۔اب جب کہ امریکہ میں ویکسین نہ لگوانے والوں میں کویڈ کے انفیکشنز میں اضافہ ہو رہا ہے، صدر جو بائیڈن نے کارکنوں کی ویکسی نیشن پر گفتگو کے لئے بدھ کے روز کمپنیوں کے ایکزیکٹوز سے ملاقات کی۔ بائیڈن نے کہا کہ لیبر ڈپارٹمنٹ کم از کم ایک سو لوگوں کو ملازم رکھنے والی کمپنیوں سے اس تقاضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے کہ وہ ان کے لئے ویکسین لگوانا لازمی کر دیں۔صدر نے کہا کہ کمپنیوں کو اپنے کارکنوں سے تقاضا کرنا چاہئے کہ وہ مکمل طور پر ویکسی نیشن کروائیں یا ہفتے میں کم از کم ایک بار اس کا نیگیٹیو ٹیسٹ فراہم کریں۔صدر نے کہا کہ لگ بھگ ایک سو ملین ملازمین اس تقاضے کے تحت آئیں گے۔ ویکسی نیشن اور ٹیسٹنگ کے نئے تقاضے کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھنے والے ڈیلٹا ویرینٹ کا پھیلاؤ روکنے کے لئے بائیڈن انتظامیہ کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہیں۔جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے کرونا وائرس ریسرچ سینٹر کے، مطابق اگرچہ ویکسی نیشن مفت اور بڑے پیمانے پر دستیاب ہے، لیکن صرف 55 فیصد امریکی مکمل طور پر ویکسی نیٹڈ ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال قبل شروع ہونے والی کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں 11 کروڑ 70 لاکھ طالب علم ابھی تک اسکول واپس نہیں جا سکے۔جمعرات کو ایک بیان میں، اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم نے کہا کہ طلباء￿ کی تعداد جو ابھی تک کلاس روم میں واپس نہیں آ سکی، وہ طالب علموں کی عالمی تعداد کا تقریباً ساڑھے سات فی صد ہے۔یونیسکو کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل برائے تعلیم سٹیفانیا گیانینی نے کہا، "ہم جانتے ہیں کہ جتنے طویل عرصے تک اسکول بند رہیں گے، بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کے سیکھنے پر زیادہ ڈرامائی اور ممکنہ طور پر ناقابل واپسی اثرات مرتب ہوں گے۔”گیانینی نے کہا کہ یہ "حوصلہ افزا” ہے کہ بہت سی حکومتیں اسکولوں کو حفاظتی انتظامات کے تحت کھولنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہمارا انتہائی ضروری اور فوری مقصد یہ ہے کہ ہر طالب علم کے لیے ہر جگہ اسکول کھل جائیں۔یونیسکو نے کہا کہ 117 ممالک میں سکول مکمل طور پر دوبارہ کھل گئے ہیں، جس سے پری پرائمری سے سیکنڈری لیول تک دنیا کے 35 فیصد طالب علم کلاس روم میں واپس آ سکتے ہیں۔ ستمبر 2020 میں، دنیا کے 195 ممالک میں سے صرف 94 میں اسکول دوبارہ کھلنے پر 16 فیصد طالب علم اپنی کلاسوں میں واپس آئے تھے۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی طویل اور بار بار بندش سے بچے سیکھنے کے مواقع سے محروم ہوئے، اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اسکولوں کی بندش نے انتہائی کمزور طلباء کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا۔اس گروپ نے یہ بھی کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ اور ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر حکومتوں کو اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور پروگراموں کو چلانے میں مدد دے رہا ہے۔

Related Articles