امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، طالبان

کابل/واشنگٹن،ستمبر-امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان کس نوعیت کے تعلقات ہو سکتے ہیں، اس پر تجزیہ کاروں کی رائے منقسم ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے امریکہ کے تعلقات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ طالبان عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی کتنی باسداری کرتے ہیں۔وائس آف امریکہ کی مونا شاہ نے یہ جاننے کے لیے کہ طالبان اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین سے بات کی اور ان سے یہ پوچھا کہ وہ طالبان کے امریکہ سے تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں، دوست کے طور پر یا دشمن کے طور پر؟ان کا کہنا تھا کہ جس وقت امریکہ افغانستان میں ان سے جنگ لڑ رہا تھا اس وقت وہ ان کا دشمن تھا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے دوحہ مذاکرات کا حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کہ آخرکار امریکہ نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ فوجی ایکشن اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ اب یہ چیپٹر ختم ہو چکا ہے اور نیا دور شروع ہو رہا ہے۔سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گا یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر وہ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔ ایک دوست سے ایسا کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پر پاکستان کے خدشات کے حوالے سے وائس آف امریکہ نے ان سے پوچھا کہ اس گروپ کے ساتھ اپنے نظریاتی تعلق کی وجہ وہ اس مسئلے کا حل کس طرح نکالیں گے۔ جس پر انہوں نے اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی گروہ کو افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔داعش کی خطے میں موجودگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ داعش کو کنٹرول کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا، "جب ہمارے ملک پر قبضہ کیا گیا تھا تو شمالی صوبوں کنڑ اور ننگرہار میں داعش موجود تھی۔ امریکہ بمباری یا ڈورن سے حملے کرنے کے باوجود انہیں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ لیکن جب داعش نے لڑنا شروع کیا تو ہم نے ان صوبوں میں ان کا مقابلہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے انہیں ننگرہار، کنڑ اور شمالی صوبوں سے ان کا صفایا کر دیا اور سابقہ انتظامیہ انہیں کابل لے گئی۔کابینہ پر امریکہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ وہ تمام لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی، سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ یہ حکومت تمام نسلی گروپس کی حمایت سے بنائی گئی ہے۔ الیکشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس پر آئین کے مسودے پر کام کرتے وقت دیکھا جائے گا۔سہیل شاہین کے کہا، "آپ افغانستان میں تمام نسلی گروہوں پر مشتمل ایک طاقت دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک الیکشن کی بات ہے، الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں، اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ مستقبل میں آئین پر کام کرنے کا منصوبہ ہے تو ان پر آئین کے مسودے کی تیاری کے وقت غور کیا جا سکے گا، ابھی نہیں۔عورتوں کے حقوق، تعلیم اور حکومت میں شمولیت سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کو شریعت کے مطابق تمام حقوق دیے جائیں گے، لیکن جہاں تک عورتوں کے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہونے کی بات ہے تو اس پر علمائے دین کے مشوروں کے بعد ہی غور کیا جائے گا۔احمد رشید ممتاز تجزیہ کار ہیں اور انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ، طالبان، وسطی ایشیا کے حالات پر کئی کتابیں تحریر کر رکھی ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو پر انہوں نے لاہور سے ایک انٹرویو میں اس کا تجزیہ کیا ہے۔احمد رشید کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی نیا آئین دیگر فریقوں کی شرکت کے بغیر تشکیل دیا جاتا ہے تو اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ طالبان کے اس بیان پر کہ موجودہ کابینہ ایک عارضی کابینہ ہے، احمد رشید نے کہا طالبان سے کابینہ کی موجودہ ہیئت میں تبدیلی کی توقع ایسے میں کس طرح رکھی جا سکتی ہے جب وہ سخت گیر عناصر اور حقانی گروپ کا دفاع کر رہے ہیں۔تجزیہ کار اور مصنف احمد رشید اس بارے میں بھی شبہات رکھتے ہیں کہ طالبان داعش کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ اتحاد میں جا سکتے ہیں۔خواتین کیحقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے خدشات بدستور موجود ہیں۔ انہی خدشات کے پیشِ نظر کھیلوں اور کئی دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والی متعددخواتین ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔

Related Articles