حجاب فیصلے کی مسلم رہنماؤں نے کی مذمت

نئی دہلی، مارچ ۔ اسد الدین اویسی، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے منگل کو کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی مذمت کی جس میں حجاب کو اسلام کا غیر ضروری جز قرار دیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں ممنوع کر دیا گیا۔ پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا،‘یہ فیصلہ بے حد مایوس کن ہے ۔ ہم ایک طرف خواتین کو بہ اختیار بنانے کی بات کر تے ہیں اور دوسری طرف ہم ان سے چننے (انتخاب کرنے ) کا حق چھین رہے ہیں۔ یہ محض مذہب کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ چننے کی آزادی سے متعلق ہے ’۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے قومی صدر اور لوک سبھا رکن اسد الدین اویسی نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ عرضی گذار ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کور ٹ سے رجوع کریں گے ۔ انہوں نے فیصلے کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اپنے فکر و نظر کے کئی وجوہات بتلائیں’۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے نے ‘مذہب، ثقافت اور اظہار خیال کی آزادی کے بنیادی حقوق’ کو ختم کر دیا ہے ۔انہوں نے کہا،‘ایک مذہبی مسلمان کا حجاب’ ایک طرح کی عبادت ہے ۔ لازمی مذہبی معاملہ امتحان کو کسوٹی پر رکھنے کا وقت آ گیا ہے ۔ ایک مذہبی شخص کے لیے سب کچھ ضروری ہے اور لا مذہبیت (دہریت) کے لیے کچھ لازم نہیں ہے ۔ ایک مذہبی ہندو برہمن کے لیے ‘جینیو’ لازمی ہے مگر ایک غیر برہمن کے لیے لازم نہیں ہے ۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ جج لازمییت کا تعین کر سکتے ہیں’۔ مسٹر اویسی نے کہا،‘ایک ہی مذہب کے دوسرے لوگوں کو لازمیت کا تعین کرنے کا حق نہیں ہے ۔ یہ ایک شخص اور رب کے درمیان کا معاملہ ہے ۔ ریاست کو ان مذہبی حقوق میں دخل دینے کی اجازت صرف تب ہونی چاہیے ، جب یہ کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچاتے ہوں۔ حجاب کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا’۔ مسٹر اویسی نے کہا کہ حجاب پر پابندی لگانا مسلم خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ انھیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ،‘دلیل دی جا رہی ہے کہ ڈریس سے یکسانیت یقینی ہوگی۔ کیسے ؟ کیا بچوں کو یہ پتہ نہیں چلے گا کہ کون امیر خاندان سے ہے اور کون غریب خاندان سے ؟ کیا ذات پر مبنی نام، بچوں کے طبقے کی طرف اشارہ نہیں کریں گے ؟ جب آئرلینڈ میں حجاب اور سکھ پگڑی کو اجازت دینے کے لیے پولیس کی وردی میں تبدیلی کی گئی تھی تو مودی حکومت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ ملک اور بیرون ملک کے لیے دوہرے معیار کیوں؟ اسکول ڈریس کے رنگ کے مطابق حجاب اور پگڑی کو پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے ’۔ مسٹر اویسی نے کہا،‘مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ حجاب والی خواتین کے استحصال کو درست ٹھہرانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ایک شخص امید کر ہی سکتا ہے ۔ بینکوں، اسپتالوں اور بس-میٹرو میں اس طرح کے واقعات کے شروع ہونے پر مایوس ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا’۔

Related Articles