اردوغان کی پالیسی یا کچھ اور، لیرا تیزی سے اپنی قدر کیوں کھو رہا ہے؟

انقرہ،دسمبر۔سترہ دسمبر کو ترک مرکزی بینک نے جیسے ہی لیرا پر شرحِ سود میں کمی کا اعلان کیا تو ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں تیزی سے گراوٹ ہوئی اور ایک ڈالر 17 لیرا سے بھی زیادہ کا ہو گیا۔بینک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نے امریکی ڈالر فروخت کر کے براہِ راست مارکیٹ میں مداخلت کی کیونکہ اس کے مطابق شرحِ تبادلہ خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔لیرا کی گراوٹ کی شرح جمعے کو آٹھ فیصد سے زیادہ ہو گئی مگر مرکزی بینک کی مداخلت کے باعث شرحِ تبادلہ 16.3 لیرا فی ڈالر پر مستحکم ہو گئی۔مرکزی بینک گذشتہ دو ہفتوں میں متعدد بار کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کر کے ڈالر فروخت کر چکا ہے تاکہ لیرا کی گراوٹ کو روکا جا سکے۔ نتیجتاً ترکی کے زرِ مبادلہ کے سکڑتے ذخائر میں مزید کمی ہوئی ہے۔لیرا کی قدر میں آٹھ فیصد کمی کے بعد استنبول کے ایوانِ صنعت کے سربراہ نے جمعے کو کہا کہ وہ حیران ہیں کہ ایک روز مرکزی بینک نے شرحِ سود میں کمی کی تو دوسرے دن لیرا کو مزید گرنے سے روکنے کے لیے اپنے ڈالر فروخت کر دیے۔اس سے لیرا کی قدر میں کمی کا مرحلہ تیز ہو گیا جس سے ترک شہریوں کے حالاتِ زندگی سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 20 فیصد ہے، جس نے اْن کی جمع پونجی ختم کر کے رکھ دی ہے۔مگر کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقی شرحِ افراطِ زر 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے کیونکہ دکانیں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں یومیہ بنیادوں پر رد و بدل کرتی ہیں۔حکومت مخالف اخبار جمہوریت نے 13 دسمبر کو لکھا کہ استنبول کے کچھ حصوں میں روٹی کی قیمت ساڑھے تین لیرا سے بھی زیادہ ہونے کے بعد لوگ سرکاری دکانوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں کیونکہ وہاں پر روٹی سستی مل رہی ہے۔خبروں کے مطابق رواں سال کی ابتدا سے اب تک لیرا کی قدر میں 55 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس میں سے 37 فیصد گراوٹ صرف گذشتہ 30 دنوں میں ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ویسے تو صدر رجب طیب اردوغان نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اگلے سال 50 فیصد بڑھا کر 4250 لیرا (275 ڈالر) ماہانہ کرنے کا اعلان کیا ہے، مگر درحقیقت یہ تنخواہ گذشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے جب یہ 380 ڈالر ہوتی تھی۔ساٹھ لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے مزید مہنگائی ہو گی اور یوں ترک لیرا مزید گرے گا۔لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سادہ اور واضح ہے۔ یہ صدر رجب طیب اردوغان کی شرحِ سود کم سے کم رکھنے کی غیر روایتی معاشی پالیسی ہے جو اْن کے مطابق معیشت کی نمو کے لیے ضروری ہے جبکہ اس سے ترک مصنوعات کی برآمد بھی آسان ہوگی کیونکہ یہ بین الاقوامی منڈی میں سستی فروخت کی جا سکیں گی۔مگر اس پالیسی میں ایک پہلو کو نظرانداز کیا گیا ہے اور وہ یہ ترکی اپنی برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے خام مال کا بڑا حصہ درآمد کرتا ہے۔ اور لیرا کی قدر میں کمی کے باعث ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ترک اپوزیشن نے سابق وزیرِ خزانہ اور اردوغان کے داماد برا البراق پر الزام عائد کیا تھا کہ اْنھوں نے ترک ایکسچینج مارکیٹ میں لیرا کی قدر مستحکم رکھنے کے لیے 100 ارب ڈالر جھونک دیے اور پھر بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔مگر ترک مرکزی بینک ایک اور مرتبہ کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کرنے سے نہیں جھجھکا اور لیرا کی قدر میں مزید کمی کے آگے بند باندھنے کی خاطر کروڑوں ڈالر مارکیٹ میں دوبارہ فراہم کر دیے جس سے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو نقصان پہنچا۔گذشتہ دو ہفتے کے دوران بینک کرنسی مارکیٹ میں پانچ مرتبہ مداخلت کر چکا ہے اور اس دوران چار ارب ڈالر مارکیٹ میں فراہم کر چکا ہے۔کئی ماہرینِ معیشت کے نزدیک اگر مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہو تو شرحِ سود بڑھا کر اسے قابو کیا جا سکتا ہے تاہم اردوغان سود کو وہ بلا سمجھتے ہیں جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنا دیتی ہے۔ اردوغان کی درخواست شرحِ سود گذشتہ ستمبر سے اب تک پانچ مرتبہ ایک ایک فیصد کم کی گئی ہے اور اس دوران ترک لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں نصف ہو کر رہ گئی ہے اور مہنگائی میں 21 فیصد کا اضافہ (سرکاری ڈیٹا کے مطابق) ہوا ہے، جو کہ پانچ فیصد کے سرکاری ہدف کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔لیرا کی قدر میں کمی کا سلسلہ 2016 میں شروع ہوا تھا جب ایک ڈالر 2.92 لیرا کا تھا اور اسی سال اس کی قدر میں 17 فیصد کمی ہوئی تھی۔ سال کے اختتام تک ایک ڈالر 3.53 لیرا کا ہو گیا تھا۔پھر 2017 کے اوائل میں ایک ڈالر 3.779 لیرا کا ہو گیا اور آئندہ سالوں میں اس کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا۔

Related Articles