آکسفورڈ یونیورسٹی کی رہوڈز اسکالرشپ

امریکہ سے کوالیفائی کرنے والے 32 طالب علموں میں 22 خواتین شامل

واشنگٹن ڈی سی،نومبر۔برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اگلے سال کے رہوڈز اسکالرشپس پروگرام کے تحت امریکہ سے منتخب کیے گئے طالب علموں میں تارک وطن خواتین کی ریکارڈ تعداد شامل ہے۔رہوڈز ٹرسٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 2022 کے لیے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے امریکہ سے منتخب کیے گئے 32 طالب علموں میں 22 خواتین شامل ہیں۔منتخب کیے گئے اسکالرز میں شامل اکیس سالہ لوئیز فرینک ریاست جنوبی کیرولائینا کی کلیمسن یونیورسٹی میں بائیوکیمسٹری کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ سائنس اور پبلک سفارتکاری میں دلچسپی کو آگے بڑھاتے ہوئے صحت عامہ کی پالیسی کے شعبے میں کیریئر بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں لوئیز سیاسیات، فلسفے اور اقتصادیات کے مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گی۔لوئیز جو ریاست جنوبی کیرولائنا کے علاقے سپاٹن برگ سے تعلق رکھتی ہیں، کلیمسن یونیورسٹی سے رہوڈز سکالرشپ کے لئے منتخب ہونے والی پہلی طالب علم ہیں۔انہوں نے اپنی اس کامیابی کو اسکول میں سرپرست اساتذہ اور مختلف پروگراموں کا مرہون منت قرار دیا۔ان کے الفاظ میں، "مجھے اس تاریخی لمحے کا حصہ بننے پر ایک خاتون اور جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہونے کے ناطیبے حد خوشی ہے۔ میرے پاس اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔”اس پروگرام کے تحت وظیفہ حاصل کرنے والے طالب علموں میں دیواشیش بسنت بھی شامل ہیں جو نیویارک شہر کے ہنٹر کالج میں پولیٹکل سائنس پڑھ رہے ہیں۔ دیواشیش سات سال کی عمر میں نیپال سے ایک پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ آئے تھے۔ ان کے بچپن کا ایک اہم حصہ امیگریشن کورٹس میں گزرا۔ یہ وہ تجربہ تھا جس نے، ان کے بقول، انہیں امیگریشن پالیسی کی طرف راغب کیا۔بائس سالہ دیواشیش کا تعلق نیویارک کے ہکس ول علاقے سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ نیویارک سٹی پبلک سکولز میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کی حیثیت سے وہ اپنی برادری کی رہوڈز پروگرام میں نمائندگی کر رہے ہیں۔رہوڈز اسکالرشپ جیتنے کی خبر کے متعلق انہوں نے اپنے تاثرات کا یوں ذکر کیا: "پہلے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ یہ سب حقیقی محسوس نہیں لگ رہا تھا۔”خیال رہے کہ کروناوائرس کی عالمی وبا کے باعث یہ دوسرا مسلسل سال تھا جب رہوڈز اسکالرشپس دینے کا پورا عمل ورچوئل یعنی آن لائن مکمل کیا گیا۔ریاست ایریزونا کے سکاٹس ڈیل سے تعلق رکھنے والے جوش بابو کی کیفیت یہ تھی کہ انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی کے کلاس روم میں اپنا نام کامیاب امیدوار کے طور پر سنا، تو وہ رونے لگے۔اکیس سالہ جوش اگلے سال ڈاکٹر بننے کے لیے ایک میڈیکل اسکول میں داخلے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ عورت اور مرد کی صنفی شناخت سے مختلف افراد کی کمیونٹی کے لئے کام کر سکیں۔ انہیں اس بات کا خیال ایک ہم جنس پرست یا مختلف جنسی شناخت والے فرد کی حیثیت سے اپنے کالج کے قدامت پسند ماحول کے تجربے سے آیا۔اب جوش بابو اس اسکالرشپ سے پالیسی سازی کے شعبے میں کیریئر بنانے کے خواہشمند ہیں اور ان کے بقول، وہ اپنے جیسے لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈال سکیں گے۔اپنے کالج کے مقالے کے لیے وہ صنف کی تصدیق کرنے والے طبی سہولتوں کے نظام کے ذریعے اپنی طرح کے مختلف بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے موضوع ہر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تحقیق اس لیے ضروری ہے کیونکہ کچھ قانون سازوں نے اس قسم کی دیکھ بھال کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے مریضوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ اور، اب ان کیبقول، اس اسکالرشپ کی تعلیم کے ذریعے ان کے پاس موقعہ ہے کہ صحت عامہ کی پالیسی کے شعبہ میں خدمات انجام دے کر وہ پالیسی کی سطح ہر تبدیلی لا سکیں اور یہ کام ان کے ڈاکٹر بننے کے پہلے منصوبے سے کہیں زیادہ وسیع اور دوررس ہوگا۔اس سال دیے گئے وظائف کی ایک خاص بات یہ ہے کہ گزشتہ پچیس سال میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ریاست کیلی فورنیا کے کلیئرمانٹ مکینا کالج، میسا چیوسٹ ریاست کے ہولیوک کالج اور نیویارک کے یونین کالج میں سے کسی طالب علم کو رہوڈز اسکالر منتخب کیا گیا ہے۔تمام اسکالرز اگلے سال اکتوبر میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع کریں گے۔ رہوڈز سکالرشپ کی رقم ان کیتعلیم کے دوران ہونے والے مالی اخراجات پورے کرے گی۔یاد رہے کہ رہوڈز اسکالرشپ کے لیے درخواست دینے والے طالب علموں کے لیے لازمی ہے کہ ان کے کالجز ان کی درخواست کی توثیق کریں۔ اگلے مرحلے میں امریکہ کی مختلف ریاستوں کے 16 اضلاع پر مشتمل سیلیکشن کمیٹی پھر امیدوار طالب علموں کا چناو کرتی ہے اور ان کے انٹرویوز کرتی ہے۔ آخری مرحلے میں ہر ضلع میں سے دو طالب علموں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

 

Related Articles